الحمد للہ.
مسلمان کا اس بات کو تسلیم کر لینا کہ کچھ انسان اپنے بعض تجربات کی بنیاد پر زلزلے وغیرہ پیدا کر سکتے ہیں، محض ایسی باتوں سے انسان شرک میں مبتلا نہیں ہوتا؛ کیونکہ اللہ تعالی نے اس کائنات کے لیے کچھ اصول وضع کیے ہیں یہ کائنات انہی اصولوں پر رواں دواں ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے کچھ انسانوں کو کائنات کے ان اصولوں کے متعلق تحقیق کرنے کی صلاحیت بخشی ہے کہ ان کو پہچانیں اور ان سے استفادہ کریں۔ یہ معاملہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ اللہ تعالی شفا دینے والا ہے، لیکن شفا کے لیے اللہ تعالی نے کچھ اسباب بھی بنائے ہیں۔
جیسے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہر بیماری کی دوا ہے، جب دوا بیماری کے عین مطابق ہوتی ہے تو اللہ کے حکم سے بیمار صحت مند ہو جاتا ہے۔) مسلم: (2204)
تو اللہ تعالی نے اپنے کچھ بندوں کو ان ادویات کی معرفت سے نواز دیا ہے۔
جیسے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں کہ: (اللہ تعالی نے کوئی بیماری ایسی نازل نہیں کی جس کی دوا نازل نہ کی ہو۔ کھوج لگانے والے اسے جان لیتے ہیں اور جاہل اس سے نابلد رہتے ہیں۔) اسے امام احمد نے مسند : (6 / 50) میں روایت کیا ہے۔
چنانچہ کسی طبیب کا شفا کے ذریعہ کو دریافت کر لینا بھی اللہ تعالی کی مشیئت ، ارادے اور تقدیر کے تحت ہوتا ہے۔ طبیب اور فن طب دونوں ہی اللہ تعالی کی مخلوق ہیں۔
کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ
ترجمہ: اور اللہ تعالی نے تمہیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم عمل کرتے ہو۔[الصافات: 96]
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"اس آیت میں اس بات کا احتمال ہے کہ "ما" مصدریہ ہو، اس اعتبار سے مفہوم یہ ہو گا کہ اللہ تعالی نے تمہیں بھی پیدا کیا اور تمہارے عمل کرنے کو بھی پیدا کیا۔
اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ "ما" بمعنی "الذی" ہو، تو پھر معنی ہو گا: اللہ تعالی نے تمہیں بھی پیدا کیا اور اسے بھی جو تم عمل کرتے ہو۔
یہ دونوں موقف لازم اور ملزوم ہیں، تاہم پہلا موقف بہتر ہے؛ کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: "افعال العباد" میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے اس کا معنی مرفوعا نقل کیا ہے کہ: یقیناً اللہ تعالی ہر صانع اور اس کی صنعت دونوں کو پیدا کرنے والا ہے۔۔۔" ختم شد
"تفسیر ابن کثیر" (7/ 26)
بالکل ایسے ہی کہ اللہ تعالی نے اپنی کچھ مخلوقات کو چیزوں کے متحرک ہونے کے متعلق اپنے قوانین سمجھا دئیے، جن کی بدولت وہ زمین پر چلنے والی سواریاں ، ہوا میں اڑنے والے جہاز، اور پانی پر تیرنے والی کشتیاں بنانے کے قابل ہو گئے، یہ سب کچھ اللہ تعالی کی مشیئت ، اذن اور تقدیر کی بدولت ہوا، ان چیزوں کو بنانے والے اور ان کی مصنوعات سب کچھ ہی اللہ تعالی کی مخلوق ہیں۔
جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
ترجمہ: گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا کیے تا کہ تم ان پر سواری کرو اور ان سے زینت حاصل کرو، اور اللہ تعالی وہ کچھ پیدا فرمائے گا جو تم نہیں جانتے۔ [النحل: 8]
مفسر قرآن علامہ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی: وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ یعنی: اللہ تعالی وہ کچھ پیدا فرمائے گا جو تم نہیں جانتے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے ذکر کیا کہ اللہ تعالی ایسی چیزیں پیدا فرمائے گا جو نزول قرآن کے وقت مخاطب لوگ نہیں جانتے تھے، اور اسم موصول کے ذریعے جو چیز پیدا فرمائے گا اسے مبہم بھی رکھا، اس کی وضاحت بالکل نہیں کی۔ لیکن چونکہ سیاق سواریوں کی نعمتوں کے تذکرے کا چل رہا ہے اس لیے اس میں اشارہ ہے کہ مستقبل میں کچھ پیدا ہونے والی چیزیں سواریاں بھی ہوں گی، چنانچہ اللہ تعالی کی بندوں پر ہونے والی نعمتوں میں اس چیز کا مشاہدہ کیا گیا کہ اللہ تعالی نے بندوں کو ایسی سواریاں عطا فرمائیں جو اس آیت کے نزول کے وقت موجود نہیں تھیں، مثلاً: ہوائی جہاز، ریل گاڑیاں اور کاریں وغیرہ ۔" ختم شد
"أضواء البيان" (3 / 265 – 266)
چنانچہ محض یہ سوچنا کہ اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے ماہرین بھی ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اندھیریوں اور زلزلوں کے رونما ہونے کے اسباب سمجھنے کی صلاحیت دی ہے، بلکہ جب کسی باصلاحیت بندے سے ایسی باتیں سننے کو ملیں تو اسے مان لینا بھی کفر کے درجے تک نہیں پہنچتا، بشرطیکہ ایسے سوچنے اور ان باتوں کو ماننے والا شخص یہ ایمان رکھتا ہو کہ یہ ماہرین اللہ کے پیدا کردہ بندے ہیں، یہ اللہ تعالی کی مشیئت اور تقدیر کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے، اس کائنات کے سارے امور صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہیں، ان ماہرین کی کوششیں صرف وہیں کامیاب ہوتی ہیں جن کے کلی یا جزوی اسباب انہیں معلوم ہو چکے ہیں، اور یہ کامیابی بھی اللہ تعالی کی تقدیر ، علم، ارادے اور خلق سے ہی ممکن ہوتی ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ، سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ فَأَنَّى تُسْحَرُونَ
ترجمہ: کہہ دیجیے! کس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اقتدار ہے، وہ پناہ دیتا ہے، اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا اگر تم جانتے ہو تو بتلاؤ، وہ ضرور کہیں گے: اللہ کے ہاتھ میں اقتدار ہے۔ تو پھر آپ کہیں: تو تمہیں کہاں بہکایا جا رہا ہے؟[المؤمنون: 88 – 89]
یہاں یہ بات بھی مد نظر رہے کہ ایسی چیزوں کے بارے میں مبالغہ آرائی اور انہیں حقیقت سے کہیں زیادہ بڑھاوا دے کر بیان نہیں کرنا چاہیے؛ کیونکہ عام طور پر جو ایسی چیزیں مشہور کر دی جاتی ہیں یا بیان کیا جاتا ہے، اس میں اصل مقصد زلزلہ بپا کرنا نہیں ہوتا، بلکہ زیر زمین سائنسی یا دیگر مقاصد کے لیے دھماکے کیے جاتے ہیں جن کی وجہ سے زمین میں ارتعاش یا حرکت پیدا ہوتی ہے جسے زلزلہ کہہ دیا جاتا ہے، ایسے سائنسی تجربات کی وجہ سے ہونے والے ارتعاش کی شدت میں کمی بیشی بھی ہوتی ہے۔
واللہ اعلم