الحمد للہ.
اول:
اگر معاہدے میں اجرت متعین نہ ہو اور یہ معلوم ہو کہ اجیر مخصوص اجرت کے عوض تدریس کر رہا ہے جیسے کہ سوال میں بھی مذکور ہے تو پھر یہاں اپنی خدمات کو اجرت کے عوض دینا جائز ہے، اس صورت میں اجیر کو مثل اجرت ملے گا، دل میں آنے والی نیت کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا۔
جیسے کہ "الروض المربع" ص410 میں ہے کہ:
"اگر کوئی شخص حمام یا کشتی میں اجرت طے کیے بغیر داخل ہو جائے، یا دھوبی یا درزی کو بغیر کسی بات طے کیے کپڑے دے دے، تو عرف کے مطابق اجرت کے عوض یہ عقد درست ہو گا؛ کیونکہ یہاں عرف عام بات طے کرنے کے قائم مقام ہو گا، اسی طرح اگر کوئی اپنا سامان بیچنے والے کو دے دے، یا کسی قلی سے سامان اٹھوائے تو ان کے لیے عرف کے مطابق اجرت ہو گی، اگرچہ اس مزدور کی ذاتی طور پر اجرت لینے کی عادت نہ ہو۔" ختم شد
اگر یہ نوجوان اپنے حق کے کچھ حصے سے دست بردار ہونا چاہے اور تھوڑا معاوضہ لے تو اس نے طالب علم کے والد کے ساتھ نیکی کی ہے، اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے، لیکن علاقائی عرف سے بڑھ کر معاوضہ لے تو یہ اس وقت تک جائز نہیں ہو گا جب تک طالب علم کے والد کے ساتھ کھلے لفظوں میں یہ بات طے نہ ہو جائے۔
دوم:
اجارہ اور ادھار دونوں کو اکٹھا کرنا جائز نہیں ہے؛ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (بیک وقت قرض دینا اور فروخت کرنا صحیح نہیں ہے) اس حدیث کو ترمذی: (1234)، ابو داود: (3504) اور نسائی: (4611) نے روایت کیا ہے ، نیز امام ترمذی اور البانی دونوں نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اجارہ: خدمات فروخت کرنے کو کہتے ہیں، جمہور اہل علم قرض اور کسی بھی ایسے عقد کو اکٹھے کرنے سے منع کرتے ہیں جس میں معاوضہ ہو، مثلاً: دلالی وغیرہ کا کام ۔
اور اگر دی گئی رقم کا مطلب یہ تھا کہ اجرت کی ادائیگی پیشگی کی گئی ہے تو پھر اس میں اس وقت کوئی حرج نہیں ہے جب اجرت کی مقدار معلوم ہو، لیکن جب اجرت کی مقدار معلوم نہ اور اجارہ کا عقد ہی درست نہ ہو تو پھر جس کے پاس یہ رقم ہے وہ امانت ہے، اور اگر وہ اس امانت کو استعمال کر لیتا ہے تو یہ قرض ہو گا۔
واللہ اعلم