سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

سودى بنكوں كے حصص سے چھٹكارا كيسے ؟

35726

تاریخ اشاعت : 25-05-2007

مشاہدات : 5748

سوال

ايك شخص نے سودى لين دين كرنے والے بنك كے حصص خريدے اور وہ اس سے چھٹكارا حاصل كرنے كے ليے كيا كرے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سودى لين دين كرنے والے بنكوں يا سود پر قائم كمپنيوں كے حصص كى خريدارى كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ اس ميں سود خورى ہے، كيونكہ حديث ميں ہے:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود خور اور سود كھلانے والے پر لعنت فرمائى ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1597 ).

اسلامى فقہ اكيڈمى كى ساتويں كانفرنس جو ( 1412 ھـ ) جدہ ميں منعقد ہوئى ميں درج ذيل قرار پاس كى گئى:

" جن كمپنيوں كى اساس اور بنياد ہى حرام غرض پر ہو مثلا سودى لين دين، يا حرام اشياء كى تيارى، اور اس كى تجارت تو اس ميں شراكت حرام ہے " انتہى.

ديكھيں: مجلۃ المجمع الفقھى عدد نمبر ( 7 ) جلد اول صفحہ ( 711 ).

دوم:

جو ان حصص كى خريدارى ميں مبتلا ہو چكا ہو اس پر واجب ہے كہ وہ اس سے اللہ تعالى كے ہاں توبہ و استغفار كرے، اور اپنے اس فعل پر ندامت كا اظہار كرتا ہوا آئندہ كے ليے ايسا نہ كرنے كا پختہ عزم كرے، اور اس بنك يا كمپنى سے لين دين منقطع كر كے خارج ہو جائے، اور ان حصص كو فروخت كردے، اور اسے صرف اپنا اصل مال ہى لينے كا حق حاصل ہے اس كے علاوہ جو زائد مال ہوگا وہ اسے نيكى و بھلائى كے كاموں ميں خرچ كر دے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ميرے ايك كمپنى كے حصص ميں شراكت تھى، اور يہ كمپنى پچيس برس قبل ديواليہ ہوگئى، كمپنى كے كچھ نگران حضرات نے الرياض بنك ميں كمپنى كے باقى مانندہ حصص پچيس برس قبل ايك ہزار ريال فى حصہ كے حساب سے خريد ليے، اور اب اس ايك حصہ كى قيمت تيس ہزار ريال ہے، مجھے اس وقت رقم كى ضرورت بھى ہے، كيا ميرے ليے حصہ كى موجودہ قيمت كے حساب سے رقم حاصل كرنى جائز ہے ؟

يہ علم ميں رہے كہ انہوں نے رياض بنك ميں حصص كى خريدارى ہمارے علم كے بغير ہى كى، جس كا ہميں اس مكمل عرصہ ميں علم نہيں تھا ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" آپ سارى رقم حاصل كريں، اصل رقم بھى اور اس كا فائدہ بھى، پھر اصل رقم ركھ ليں، كيونكہ يہ آپ كى ملكيت ہے، اور فائدہ كو نيكى و بھلائى كے كاموں ميں خرچ كر ديں؛ كيونكہ يہ سود ہے، اور اللہ تعالى آپ كو اپنے فضل و كرم سے غنى كر ديگا، اور اس كے عوض ميں آپ كو بہتر عطا فرمائے گا، اور آپ كى ضروريات پورى كرنے ميں بھى مدد كريگا، كيونكہ جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے، اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے روزى بھى ايسى جگہ سے عطا كرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى اللہ تعالى پر بھروسہ كرتا ہے اللہ تعالى اس كے كافى ہو جاتا ہے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 506 ).

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ذيل فتوى بھى درج ہے:

" سودى بنكوں يا سود كا لين دين كرنے والى كمپنيوں ميں شراكت كرنا جائز نہيں، اور اگر شراكت كرنے والا شخص اپنى اس سودى شراكت سے چھٹكارا حاصل كرنا چاہے تو وہ ماركيٹ كے ريٹ كے مطابق اپنے حصص فروخت كر كے صرف اپنا اصل مال ركھے، اور باقى رقم كو نيكى اور بھلائى كے كاموں ميں خرچ كردے، اور ان حصص كے فوائد يا سودى نفع ميں سے كچھ رقم بھى لينا جائز نہيں.

ليكن اگر كسى ايسى كمپنى ميں شراكت ہو جو سودى لين دين نہيں كرتى تو پھر اس كا نفع حلال ہے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 508 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب