الحمد للہ.
اول:
سودی بینک کے لیے اے ٹی ایم مشین لگانے کے واسطے دکان کرائے پر دینا
سودی بینک کے لیے اے ٹی ایم مشین لگانے کے واسطے دکان کرائے پر دینا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں سودی بینکوں کے ساتھ لین دین میں معاونت ہو گی، اور بہت سے لوگ صرف اسی وجہ سے اس بینک میں اکاؤنٹ کھلوائیں گے کہ اس بینک کی اے ٹی ایم مشین میسر ہے، حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کریں، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون مت کریں، بیشک اللہ تعالی سخت عذاب دینے والا ہے۔[المائدہ: 2]
اسی طرح صحیح مسلم: (1598) میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے ، کھلانے والے، کاتب اور دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا: (یہ سب گناہ میں یکساں ہیں)
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں بالکل صراحت ہے کہ دو سودی لین دین کرنے والوں کے درمیان معاہدے کی کتابت کرنا حرام ہے، اسی طرح اس معاہدے کا گواہ بننا بھی حرام ہے، بلکہ اس میں باطل کام پر معاونت کی حرمت بھی بیان کی گئی ہے۔" ختم شد
شرح مسلم (11/ 26)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (22870 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
ایسی اے ٹی ایم مشین لگانے کے لیے دکان کرائے پر دینا جو کسی بینک کے لیے مختص نہیں ہے
اور پیسے نکلوانے کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی ایسی اے ٹی ایم مشین لگانا چاہتی ہے جو کسی خاص سودی بینک کی ہے تو اس کا حکم وہی ہے جو اوپر ذکر ہوا ہے کہ انہیں دکان کرائے پر دینا جائز نہیں ہے۔
اور اگر ایسی اے ٹی ایم مشین لگانی ہے جو کسی بینک کے ساتھ خاص نہیں اور اس علاقے میں اسلامی اور سودی ہر طرح کے بینک ہیں تو پھر دکان ایسی اے ٹی ایم مشین کے لیے کرایہ پر دی جا سکتی ہے۔
اور اگر اس ملک میں صرف سودی بینک ہی ہیں تو پھر انہیں دکان کرایہ پر نہیں دی جا سکتی؛ کیونکہ جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ ان کی وجہ سے سودی لین دین اور سودی کھاتے کھلوائے جائیں گے تو اس صورت میں دکان دار معاون شمار ہو گا۔
واللہ اعلم