سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

بنكوں ميں نفع كي بنياد پر كاروبار كےجواز كي شرط كيا ہے

36408

تاریخ اشاعت : 15-06-2010

مشاہدات : 8879

سوال

مندرجہ ذيل معاملہ كتنا صحيح ہے اور اس كا حكم كيا ہے اور جس نے يہ معاملہ كيا اس پر كيا مرتب ہوتا اور اس كا حكم كيا ہے اوراسے كيا كرنا ہوگا ؟
بنك كاروبار كي تفصيل مندرجہ ذيل ہے ( بنك كےدعوي كےمطابق)
1 - خريدار سامان كےريٹ كي تفصيل بنك كےنام پيش كرےگا ( مثلا گاڑيوں كےشوروم اور ڈيلر سے ) جس ميں گاڑي كا رنگ اور اس كي مكمل تفصيل اور قيمت درج ہو ( مثلا ايك لاكھ ريال )
2 - خريدار اپني تنخواہ كا ليٹر اور مقررہ مدت ( مثلا تين برس ) تك كےليے تنخواہ بنك كو تحويل كرنے كا فارم پيش كرے گا تا كہ اجمالي قيمت اور اصل ريٹ كےساتھ بنك كوفائدہ بھي دے ( مثلاسات فيصد ) .
3 - معاہدہ ميں معاہدہ كي معين فيس ( مثلا ايك ہزار ريال ) اور خريدار اور بنك اور گواہوں كےدستخط ہونگے.
4 - بنك شوروم كا ڈيلر كےنام چيك جاري كرےگا جوشق نمبر ايك ميں ذكر كيا گيا ہے.
5 - خريدار بنك سے چيك لےكر شوروم كےمالك يا ڈيلر كو دےگا تو اس طرح گاڑي خريدار كےنام لكھي جائےگي اور وہ گاڑي حاصل كرےگا. انتھي

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ معاملہ حرام اور ناجائز ہے، اورحقيقتا يہ معاملہ ايسا قرض ہےجوفائدہ كےساتھ اور يہ بعينہ سود ہے، اس ليے كہ بنك نےخريدار كو چيك جاري كيا ہے ( مثلا ايك لاكھ ريال كا) اور اس نےوہ قسطوں پر ليا ہے اور اس پر فائدہ بھي ديا گيا ہےجسےوہ معاہدے كا خرچہ كہتےہيں.

اس بيع كويہ نام دينےسے مباح نہيں ہوگي اس ليےكہ يہ حقيتا سودي قرض ہے نہ كہ بيع، كيونكہ بنك نےشوروم سےگاڑي نہيں خريدي اور نہ ہي بنك نے خريدار كو گاڑي فروخت كي ہےبلكہ اسے چيك كي صورت ميں رقم فراہم كي ہے.

اور بنكوں كےذريعہ سامان ( گاڑي وغيرہ ) كي خريداري جائز نہيں ليكن جب دوشرطيں پائي جائيں تواس وقت جائز ہوگي :

پہلي شرط : يہ سامان فروخت سےقبل اس كي ملكيت ميں ہو، لھذا بنك مثلا گاڑي شوروم سےاپنے ليے خريدے .

دوسري شرط: فروخت كرنے سے قبل شوروم سےگاڑي منتقل كركے اپنے قبضہ ميں لے.

اور جب معاملہ ان دونوں يا ايك شرط سےخالي ہو تو يہ معاملہ كرنا حرام ہوگا اس كي تفصيل يہ ہے:

اگر بنك حقيقتا اپنےليے گاڑي نہيں خريدتا بلكہ ايجنٹ كو صرف چيك جاري كرے تويہ سودي قرض ہوگا، جبكہ حقيقت يہ ہوئي كہ بنك نے اسے گاڑي كي قيمت ( مثلا ايك لاكھ ) بطور قرض اس شرط پر ادا كي ہے كہ وہ اسے ايك لاكھ سات ہزار واپس كرے.

اور جب بنك گاڑي خريدےاور پھر اسے اپنےقبضہ ميں لينے سےقبل فروخت كرديا توايسا كرنا بھي نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كے فرمان كي نافرماني ہے:

نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےحكيم بن حزام رضي اللہ تعالي عنہ كو فرمايا:

( جب تم كوئي چيز خريدو تو اسے اپنےقبضہ ميں كرنے سےقبل فروخت نہ كرو ) مسند احمد حديث نمبر ( 15399 ) سنن نسائي حديث نمبر ( 4613 ) علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے صحيح الجامع ( 342 ) ميں اسے صحيح قرارديا ہے.

اور دارقطني اور ابوداود ميں زيد بن ثابت رضي اللہ تعالي عنہ سے حديث مروي ہے كہ:

( نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے جس جگہ مال خريدا گيا ہو اس جگہ پر وہ چيزفروخت كرنے سےمنع فرمايا حتي كہ تاجر اسے اپنےقبضہ اورگھر ميں نہ لےجائے ) سنن ابوداود حديث نمبر ( 3499 ) علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے صحيح ابوداود ميں اس حديث كوحسن قرار ديا ہے.

اور صحيحين ميں ابن عباس رضي اللہ تعالي عنھما سے مروي ہے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

( جس نےبھي غلہ خريدا تووہ اسے پورا ( ماپ تول ميں ) اپنےقبضہ ميں كرے بغير فروخت نہ كرے ) صحيح بخاري ( 2132 ) صحيح مسلم ( 1525 )

اوريہ الفاظ زيادہ كيےہيں كہ ابن عباس رضي اللہ تعالي عنھما نےكہا كہ ميےخيال ميں ہرچيز اسي طرح ہے) يعني غلے اور دوسري اشياء ميں كوئي فرق نہيں.

تواس بنا پر بنك كو كوئي حق نہيں كہ وہ گاڑي اپنےقبضہ ميں كرنے سے قبل ہي فروخت كردے، اورہر چيز كا قبضہ اس چيز كےمطابق ہوگا، گاڑي كا قبضہ يہ ہےكہ: وہ اپني جگہ سے منتقل كي جائے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:

( اور جو چيز منتقل كي جاتي ہو، مثلا كپڑے، جانور، اور گاڑياں يا اس طرح كي دوسري اشياء انہيں منتقل كرنے سے قبضہ حاصل ہوجاتا ہے، اس ليے كہ عرف يہي ہے ) اھ ديكھيں: الشرح الممتع ( 8 / 381 ) .

مستقل فتوي كميٹي كےفتاوي جات ميں ہےكہ:

جس كوئي انسان كسي دوسرے شخص سے كوئي معين يا خاص اوصاف كي حامل كي گاڑي خريدنے كا كہےاور وہ اس سے وعدہ كرے كہ آپ سے يہ گاڑي ميں خريد لوں گا، لھذا اس شخص نے وہ گاڑي خريد لي اور اپنے قبضہ ميں لے لي، تو جس نے اس سے گاڑي خريدنے كا مطالبہ كيا تھا وہ اس سے يہ گاڑي نقد يا قسطوں ميں معلوم منافع كےساتھ خريد سكتا ہے، اور اسے اس چيز كي فروخت جواس كےملكيت ميں نہ ہو شمار نہيں كرينگے، اس ليے كہ جس سے سامان كا مطالبہ كيا گيا تھا اس نے تو چيز طلب كرنے والے كووہ چيز خريد كر اپنے قبضہ ميں كرنے كےبعد فروخت كي ہے، اس يہ حق نہيں كہ مثلا يہ گاڑي خريدنے يا پھر خريد كر اپنےقبضہ ميں كرنے سےقبل ہي دوست كو فروخت كردے، كيونكہ ايسا كرنے سے نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہےكہ چيز خريد كرقبضہ ميں كرنےاور تاجراپنےگھروں ميں لےجانےسےقبل اسي جگہ فروخت كرديں. انتھي.

ديكھيں: فتاوي اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 152 )

اورايسا شخص جو ماضي ميں ايسا معاملہ كرچكا ہےاس كا حكم يہ ہے كہ اگر تو ايسا كام كرتےوقت اسے حرمت كا علم نہيں تھا اور اس سےيہ معاملہ سرزد ہوگيا اوراسےيہ گمان تھا كہ ايسا كرنا حلال ہے تواس پر كوئي چيز لازم نہيں كيونكہ فرمان باري تعالي ہے:

اورجو شخص اپنےپاس اللہ تعالي كي آئي ہوئي نصيحت سن كر رك گيا اس كےليےوہ جو گزر چكا البقرۃ ( 275 )

اور جس نے اس كي حرمت كا علم ہونےكےباوجود يہ كام كيا، اس نےايك كبيرہ گناہ سود جيسے گناہ كےارتكاب كي جرات كي، اور اپنے آپ كو اللہ تعالي اور اس كےرسول كےخلاف جنگ ميں شامل كرليا اللہ سبحانہ وتعالي كا فرمان ہے:

اے ايمان والو اللہ تعالي سے ڈرو اور جو سود باقي رہ گيا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم سچے اور پكے ايمان والےہو، اور اگر ايسا نہيں كروگے تو اللہ تعالي اوراس كےرسول سے لڑنے كےليےتيار ہوجاؤ ہاں اگر توبہ كرلو تو تمہارااصل مال تمہارا ہي ہے، نہ تم ظلم كرو اور نہ تم پرظلم كيا جائےالبقرۃ ( 278 - 279 )

توايسے شخص كواس بہت بڑي معصيت اورگناہ سےتوبہ كرني چاہيے اور اسے يہ عزم كرنا ہوگا كہ دوبارہ ايسےكام كا ارتكاب نہيں كرے گا.

اور اس طريقہ سے حاصل كردہ گاڑي سےنفع اٹھانااوراس كا استعمال كرنا صحيح ہےان شاء اللہ توبہ اور اس كام پر ندامت كرنے كےبعد اس ميں كوئي حرج نہيں.

آپ مزيد تفصيل كےليے سوال نمبر ( 22905 ) كےجواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب