الحمد للہ.
جب خاوند اپنی کسی بھی بیوی کو تین یا پھر دو یا ایک ہی طلاق دے دے اورعورت کی عدت بھی ختم ہوچکی ہو تو وہ اپنے خاوند کےلیے اجنبی ہوجائے گی ، جس کی وجہ سے وہ اس کے ساتھ خلوت نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسے دیکھ اور چھو سکتا ہے ۔
مطلقہ عورت کا تعلق اپنے سابقہ خاوند سے وہی تعلق ہوگا جو کہ ایک اجنبی مرد سے ہوتا ہے ، اولاد کی وجہ سے ان کا آپس میں خلوت اوردیکھنا اورسفر کرنا جائز نہیں ہوجاتا ، لیکن یہ ممکن ہے کہ اولاد کا والد اپنی سابقہ بیوی کے بغیر اولاد کو گھمانے کے لیے لےجائے ، یا پھر یہ ہوسکتا ہے کہ عورت اپنے کسی محرم کے ساتھ وہاں جائے لیکن اسے کسی شرعی محذور میں نہیں پڑنا چاہیے جیسا کہ اوپر بھی ہم بیان کرچکے ہیں ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
تین طلاق والی عورت بھی اپنے سابقہ خاوند کے لیے باقی اجنبی عورتوں کی طرح ہی ہے ، اس لیے مرد کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس کے ساتھ خلوت کرے کیونکہ وہ کسی بھی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت نہیں کرسکتا ، اوراسی طرح اس کے لیے اسے دیکھنا بھی جائز نہیں کیونکہ وہ بھی اس کے لیے ایک اجنبی عورت کی حیثيت رکھتی ہے ، اوراسے اس عورت پر اصل میں بالکل کوئي اختیار حاصل نہیں ۔
دیکھیں الفتاوی الکبری ( 3 / 349 ) ۔
اولاد کا نان ونفقہ وغیرہ قبول کرنے کے بارہ میں گزارش ہے کہ جس نے اپنی بیوی کوطلاق دے دی ہو اس کی جانب سے اپنی اولاد پر خرچہ قبول کرنے میں کوئي مانع نہیں اگرچہ وہ بے نماز ہی کیوں نہ ہولیکن ماں کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو یہ کہتی رہیے کہ وہ اپنے والد کو نماز پڑھنے کی نصیحت کریں ، ہوسکتا ہے اس نصیحت کی وجہ سے وہ نماز کی پابندی کرنے لگے ۔
اوراگر والدہ کو اپنی اولاد کے متعلق ان کے کافر باپ کی طرف سے کوئي خطرہ محسوس ہو کہ وہ اولاد کے اخلاق پر اثر انداز ہوگا یا پھر انہیں حرام کام کی ترغیب دے گا توایسی حالت میں اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی اولاد کو اس کے ساتھ جانے کی اجازت دے ، کیونکہ اولاد کا کافر والد کے ساتھ جانا ان کے لیے نقصان دہ ہے ۔
واللہ اعلم .