جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

مالى ادارے كے ذمہ دار كا علاج كيا تو اس نے اسے كچھ رقم ادا كى

36599

تاریخ اشاعت : 21-06-2005

مشاہدات : 4285

سوال

ميں ايك ہاسپٹل ميں ڈاكٹر ہوں، اور مالى معاملات كے ذمہ دار كا علاج كررہا ہوں، اس شخص نے ميرے نام كچھ رقم دينے كا كہا ہے، حالانكہ ميں نے كچھ كام نہيں كيا، تو كيا ميرے ليے يہ رقم جائز ہے؟
يا ميرے ليے جائز ہے كہ ميں يہ رقم كسى خيراتى ادارے كے نام كردوں، يہ علم ميں رہے كہ ميں اس رقم كو واپس نہيں كر سكتا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر تو يہ مال سركارى ملكيت ہے، تو اس كے مستحق ہونے كے طريقہ كو جاننا ضرورى ہے، كہ اس رقم كا مستحق كس طرح بنا جا سكتا ہے، مثلا يہ كہ يہ محتاج اور ضرورتمندوں، يا كسى پيشہ ميں ماہر لوگوں كے ليے ركھى گئى شق كے تحت ہو.

لہذا اگر يہ وصف آپ پر منطبق ہوتا ہو تو آپ كے ليے يہ مال لينا جائز ہے، وگرنہ آپ يہ مال وہاں صرف كرديں جہاں يہ صفات منطبق ہوتى ہوں.

اور اگر ايسا نہ ہو تو پھر آپ كام كى ضروريات ميں يہ رقم صرف كر ديں، اور اس ميں سے خود كچھ بھى نہ ليں.

اور اس ذمہ دار شخص كو چاہيے كہ جس كا اسے امين بنايا گيا ہے اس امانت كى حفاظت كرے، اور مستحقين كے علاوہ كہيں اور مال صرف نہ كرتا پھرے.

اور اگر آپ اسے نصيحت كر سكتے ہيں تو يہ آپ كے ليے واجب اور ضرورى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اپنے بھائى كى مدد كرو چاہے وہ ظالم ہو يا مظلوم.

تو ايك شخص نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اگر وہ مظلوم ہوا تو ميں اس كى مدد كرونگا، ليكن اگر وہ ظالم ہوا تو پھر بتائيں كہ ميں كيسے اس كى مدد كروں؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اسے ظلم كرنے سے منع كرو اور باز ركھو، يہى اس كى مدد ہے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6952 ).

اور اگر وہ ذمہ دار اپنے مال ميں سے صرف كر رہا ہے تو پھر آپ اس سے كچھ بھى قبول نہ كريں؛ كيونكہ يہ اس ہديہ اور عطيہ ميں شامل ہوتا ہے جو شرعا حرام ہيں، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

ابو حميد الساعدى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ازد قبيلہ كے ايك شخص كو زكاۃ اكھٹى كرنے پر مقرر كيا، اور جب وہ واپس آيا تو كہنے لگا: يہ تمہارا ہے اور يہ مجھے ہديہ ديا گيا ہے.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" وہ اپنى ماں يا باپ كے گھر ميں كيوں نہ بيٹھ رہا، اور پھر ديكھے كہ اسے ہديہ ديا جاتا ہے كہ نہيں، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے تم ميں جو كوئى بھى اس ميں سے كوئى چيز لے گا تو وہ روز قيامت اسے اپنے كندھے پر سوار كر كے لائے گا، اگر وہ اونٹ ہوا تو اس كى آواز ہو گى، اور اگر گائے ہوئى تو اس كى بھى آواز ہو گى، اور اگر بكرى ہوئى تو وہ مميا رہى ہو گى، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھايا حتى كہ ہم نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بغل كى سفيد ديكھى، اور فرمايا:

اے اللہ ميں نے پہنچا ديا، اے اللہ ميں نےپہنچا ديا، تين بار كہا"

اور مسلم شريف كى روايت ميں ہے كہ:

پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں خطبہ ارشاد فرمايا تو اللہ تعالى كى حمد ثنا بيان كرنے كے بعد فرمايا:

" اما بعد: ميں تم ميں سے ايك شخص كو كوئى كام كرنے پرمقرر كرتا ہوں جس پر اللہ تعالى نے ميرى ذمہ دارى لگائى ہے، تو وہ شخص آ كر كہتا ہے يہ تمہارا مال ہے، اور يہ مجھے ہديہ ديا گيا ہے، وہ اپنى ماں يا باپ كے گھر كيوں نہيں بيٹھا رہا اور پھر ديكھے كہ اگر وہ سچا ہے تو كيا آيا اس كے پاس اس كا ہديہ آتا ہے كہ نہيں"

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب