الحمد للہ.
اول:
بنیادی طور پر حکم یہ ہے کہ جب خون آئے تو وہ حیض ہے چاہے دو ماہواریوں کے درمیان 15 دن ہوں یا 13 دن یا اس سے بھی کم ، تاہم اگر خون 15 دن سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے تو زائد خون استحاضہ ہے، 15 دنوں کے بعد غسل کرے، روزہ رکھے اور نماز پڑھے، آئندہ ماہ میں اپنی معتاد عادت کے مطابق ماہواری کے ایام گزارے اور غسل کر لے، لیکن اگر معتاد عادت نہ ہو تو پھر علامات دیکھ کر ماہواری شمار کرے، بصورت دیگر غالب ایام حیض کے طور پر گزارے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (68818 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
آپ کی اہلیہ نے رمضان کے آغاز میں 7 دن ماہواری کے گزار کر غلطی کی، یہ آئندہ ماہ اس وقت کرنا تھا جب استحاضہ کا علم ہو جاتا، اور چنانچہ انہوں نے یہ کام کیا تو اس وقت تک استحاضہ کا علم ہی نہیں تھا، اور یہ بات معلوم ہے کہ ماہواری کے ایام کم یا زیادہ بھی ہوتے ہیں، تو ممکن تھا کہ ان کی ماہواری 10 یا 15 دن ہو جاتی۔
جیسے کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
مجھے ماہواری آئی ہوئی ہے اور آج تک 12 دن ہو گئے ہیں، حالانکہ سائلہ کی ماہواری صرف 7 دن ہوا کرتی تھی، تو پہلے 7 دن تو اس نے نمازیں ادا نہیں کیں، پھر اپنی عادت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سے غسل کر کے نمازیں ادا کرنا شروع کر دی ہیں، تو کیا اس عورت کا یہ اقدام ٹھیک ہے؟ اور کیا یہ روزہ بھی رکھے گی یا نہیں؟ اور کیا بقیہ ایام اپنے خاوند کے ساتھ تعلقات بھی بنا سکتی ہے؟ ہمیں فتوی صادر کریں، اللہ تعالی آپ کو برکتیں عطا فرمائے۔
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس خاتون کا یہ عمل اس وقت صحیح ہو گا جب ماہواری 15 دن سے زائد ہو جائے ، لیکن 15 دن سے قبل اس چیز کا احتمال ہے کہ ماہواری کے ایام بڑھ چکے ہوں، خواتین کی ماہواری میں رد و بدل ہو جاتا ہے۔
تو اس لیے ہم اس خاتون سے کہیں گے کہ: آپ 15 دین پورے ہونے دیں، چنانچہ جب 15 دن مکمل ہو جائیں تو غسل کر کے نماز پڑھیں، پھر آئندہ ماہ صرف اپنی عادت کے مطابق ماہواری کے ایام گزاریں؛ کیونکہ کسی عورت کو مستحاضہ اس وقت تک نہیں کہا جا سکتا جب تک وہ مہینے کے آدھے ایام سے زیادہ یعنی 15 دن سے تجاوز نہ کر جائے، چنانچہ تجاوز کرنے کی صورت میں مہینے کے اکثر ایام خون والے ہوئے تو وہ استحاضہ سے قبل والی حیض کی مدت کو معتبر سمجھے ، پہلے مہینے میں 15 دن تک اپنے خاوند سے جسمانی تعلق قائم نہ کرے، البتہ دوسرے مہینے میں صرف اپنی ماہواری کی مدت کے مطابق حیض شمار کرے اور پھر غسل کر کے نماز بھی پڑھے اور اپنے خاوند کے لیے حلال بھی ہو گی۔" ختم شد
اللقاء الشهري" (69/ 20)
دوم:
جب یہ واضح ہو گیا کہ عورت خون 15 دن سے زیادہ آنے کی وجہ سے استحاضہ میں مبتلا ہے، اور انہوں نے اپنی ماہواری کے ایام کے بعد روزے رکھ لیے تھے تو ان کے روزے صحیح ہیں؛ کیونکہ یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اضافی ایام حیض نہیں تھا بلکہ استحاضہ تھا، یہ ان کی غلطی کے باوجود درست ہے؛ کیونکہ انہیں 15 دن تک انتظار کرنا چاہیے تھا؛ اس لیے کہ انہیں اس وقت اس خون کے استحاضہ ہونے کا علم ہی نہیں تھا۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر خون 8، 9، 10، یا 12 دن کے بعد منقطع ہوتا ہے یعنی عمومی ایام کی تعداد سے بڑھ جاتا ہے ، لیکن منقطع ہوتا ہے تو صحیح موقف کے مطابق یہ اضافی ایام بھی حیض ہی ہیں؛ کیونکہ حیض کے ایام کم یا زیادہ ہوتے رہتے ہیں، کبھی مسلسل آتے ہیں تو کبھی وقفے سے بھی آتے ہیں، مثلاً: ایسا ممکن ہے کہ ایک دن خون نظر آئے اور دوسرے دن نظر نہ آئے یعنی خون کبھی آئے تو کبھی نہ آئے، تو ایسی صورت میں جب خون نظر نہ آئے تو غسل کر لے، اور جس میں خون آئے تو وہ حیض کا دن ہے، ا س طرح اس کی ماہواری خلط ملط ہے، چنانچہ مہینے بھر میں خون کے دن 15 اور بغیر خون کے 14 دن ہوں تو خون والے دن حیض اور جن میں خون نہ آئے وہ طہر ہیں، اور 15 سے زائد ایام استحاضہ ہیں، جمہور اہل علم نے یہ موقف صراحت سے بیان کیا ہے۔"
یہی معتمد موقف ہے کہ: حیض کے زیادہ سے زیادہ 15 دن ہیں، ان سے زیادہ ہوں تو یہ استحاضہ ہے، خاتون نماز روزے کا اہتمام کرے اور ہر نماز کے لیے وضو کرے، معتاد ماہواری کے ایام سے لیکر 15 دنوں تک کی جو نمازیں ترک کی ہیں ان کی قضا دے، نیز اگر انہی ایام میں روزے بھی رکھے ہیں تو یہ روزے صحیح ہیں کیونکہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ یہ حیض نہیں تھا بلکہ استحاضہ تھا" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (5/ 401)
واللہ اعلم