جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

محمد بن عبد الوہاب ایک تہمت زدہ مصلح

36616

تاریخ اشاعت : 03-11-2014

مشاہدات : 17871

سوال

شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کیساتھ دشمنی کیوں روا رکھی جاتی ہے؟ انکے بارے میں بہت کچھ سننے کو ملتا ہے، اور آپکے پیرو کاروں کو "وہابی" کہا جاتا ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

بھائی یہ بات اپنے ذہن میں رکھیں کہ اللہ تعالی اپنے خاص بندوں میں سچے جھوٹے کا فرق بیان کرنے کیلئے انہیں انکے ایمان کے مطابق آزماتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

الم (1) أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (2) وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ (3) ترجمہ: الم [1] کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ انہیں ایمان کے دعوے کے بعد آزمائش کے بغیر ہی چھوڑ دیا جائے گا[2] ہم نے اِن سے پہلے لوگوں آزمایا تھا، یقینا اللہ تعالی ان میں سے سچے افراد اور جھوٹے افراد کو بخوبی جانتا ہے[العنكبوت : 1 - 3] اور ان لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائش انبیاء کی ہوتی ہے، انکے بعد جو جیسے جیسے انکے نقش قدم پر چلے اسکی آزمائش ہوتی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے۔

اور اگر انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر غور و فکر کرے تو معلوم ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم -میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں-کو بھی بہت بڑی بڑی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، حتی کہ آپکو ، کذّاب، جادو گر، اور مجنوں تک کہا گیا، آپ کی کمر مبارک پر اونٹنی کی بچہ دانی ڈالی گئی، آپکو مکہ سے بے دخل کیا گیا، طائف میں آپکے قدم مبارک لہو لہان کردئے گئے، آپکی کیفیت بھی گذشتہ جھٹلائے جانے والے انبیاء جیسی ہی تھی، اللہ تعالی آپ پر رحمتیں، اور سلامتی نازل فرمائے۔

اور شیخ امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کو بھی اسی طرح تکالیف پہنچائی گئیں جیسے مُخلص واعظین اور علمائے کرام کو پہنچائی جاتی رہی ہیں، لیکن آخر کار آپ نے جس حق بات کو پہنچانے کا عزم کر رکھا تھا وہی کامیاب ہوئی، اور حق کی روشنی و نشانات کو مٹا بھی کون سکتا ہے!! آپ تصور کریں کہ اللہ تعالی نے اپنے اس بندے کو جزیرہ عرب، اور آس پاس کے علاقوںمیں عقیدہ توحید گاڑ دینے میں کامیابیاں عطا کیں، انہوں نے یہاں پر شرک کی تمام شکل و صورتوں کو ملیامیٹ کردیا، یہ تمام چیزیں ہمارے نیک شگون کے مطابق اگر کچھ بیان کرتی ہیں تو صرف یہی کہ آپ اپنی دعوت کیلئے بہت مخلص اور انتھک محنت کرنے والے تھے، اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی مدد اور توفیق بھی انکے ساتھ شامل حال رہی ۔

دوسری طرف انکی دعوت کے دشمنوں نے جھوٹے الزامات لگانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، انکا کہنا ہے-حالانکہ وہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں- شیخ محمد بن عبد الوہاب نبوت کا دعوی کرتے ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں، اورپوری امت کی تکفیر کرتے ہیں۔۔۔وغیرہ وغیرہ، اور بھی بہت سے بہتان ہیں جو آپ پر لگائے گئے، اور جو شخص ان جھوٹ کے پلندوں میں ذرا سی بھی توجہ کرے تو اسے یقین ہوجائے گا کہ یہ صرف جھوٹ اور بہتان بازی ہے، چہار سُو شیخ کی پھیلی ہوئی کتابیں اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہیں، اسی طرح آپ کے پیروکاروں نے بھی اس قسم کی کوئی بات ذکر نہیں کی، اور اگر اس قسم کی کوئی بات ہوتی تو آپ کے پیروکار ضرور اسکی وضاحت کرتے، بصورت دیگر آپکے پیروکار نافرمان ثابت ہوتے اور اپنے محسن کے خیر خواہ ثابت نہ ہوتے۔

چنانچہ اگر آپ کے کچھ اس بارے اشکالات ہیں اور آپ انکا تفصیلی اور تشفی بخش بیان چاہتے ہو تو آپ کتاب: " دعاوى المناوئين لدعوة الشيخ محمد بن عبد الوهاب" از ڈاکٹرعبد العزیز بن عبد اللطیف کا مطالعہ کریں۔

آپ کے پیروکاروں کو "وہابی" کا لقب دینا بھی دعوت دین کے دشمنوں کی بہتان بازیوں کی کڑیوں میں سے ایک کڑی ہے، انکا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو دعوت حق سے موڑ دیں، انہیں کسی بھی طرح سے دعوت نہ پہنچے، اور اس کے لئے انکے سامنے ایک دیوار قائم کردیں۔

اگر آپ طفیل بن عمرو الدوسی رضی اللہ عنہ کے قصہ اسلام پر غور وفکر کریں تو آپکو انکے ساتھ رونما ہونے والے حالات میں اور امام محمد بن عبد الوہاب کی دعوت کیساتھ پیش آنے والےواقعات میں مماثلت نظر آئے گی۔

چنانچہ ابن ہشام نے اپنی سیرت (1/394)میں نقل کیا ہے کہ طفیل مکہ کی طرف روانہ ہوئے، تو مکہ کے داخلی راستوں کے مرکزی دروازوں پر قریش نے طفیل کو اپنے گھیرے میں لینا چاہا، اور اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی بات سننے سے منع کیا، اور اسکے کانوں میں یہ بات بھر دی کہ وہ جادو گر ہے، اور میاں بیوی میں پھوٹ ڈال دیتا ہے ۔۔۔، انہوں نے اتنے کان بھرے کہ اس نے روئی لی اور اپنے کانوں میں ٹھونس لی، چنانچہ جس وقت اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، تو دل ہی دل میں سوچا کہ روئی کان سے نکال دے، اور آپکی بات سنے، حق بات ہوگی تو قبول کر لونگا، اور اگر باطل و گھٹیا قسم کی بات ہوگی تو ردّ کردونگا، چنانچہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سننا ہی تھا کہ اسی جگہ پر مسلمان ہوگیا۔

جی ہاں! کانوں میں روئی ٹھونسنے کے بعد بھی مسلمان ہوگیا، بالکل اسی طرح شیخ محمد بن عبد الوہاب کی دعوت کے مخالفین نے بھی ہرزہ سرائی کیلئے قریش کا طریقہ اپنا یا، اس لئے کہ قریش کو یقین محکم تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دلوں کی گہرائی میں جاکر اثر کرتی ہے، اور فطرت اسے تسلیم کئے بغیر نہیں رہتی، چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں افوہیں پھیلانا شروع کردیں، تا کہ لوگوں کو آپکی دعوت حق نہ پہنچ پائے، بعینہ ہم شیخ محمد بن عبدالوہاب اور انکے پیروکاروں پر زبان درازی کرنے والے لوگوں کو پاتے ہیں کہ وہ پہلی دعوت کے خلاف استعمال ہونے والے اِنہی اوچھے ہتھکنڈوں کو اپنا کر تاریخ ایک بار پھر دوہراتے ہیں۔

پیارے بھائی! اگر آپ حق کے متلاشی ہیں ، تو اس قسم کے زبانی دعوں کو اپنے قلب و ذہن میں جگہ مت دیں، اور تلاش حق کیلئے شیخ محمد بن عبد الوہاب کی کتب بینی کریں، انکی کتابیں لوگوں کی بنائی ہوئی باتیں جھوٹی ثابت کرنے کیلئے بہت بڑی دلیل ہیں۔ و الحمد للہ

یہاں ایک اور اہم بات بھی ہے کہ شیخ کا نام "محمد" ہے، اور آپکی طرف نسبت "محمدی" ہوگی، جبکہ "وہابی" وہاب کی طرف نسبت ہے ، اور "وہاب" اللہ تعالی کی ذات ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ

ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد کج روی میں مبتلا مت کرنا، اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کرنا، کیونکہ تو ہی بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے [آل عمران : 8]

اور "وہاب" زجاج کی کتاب: " اشتقاق أسماء الله " کے صفحہ: 126، کے مطابق: " عطا کرنے والا ، دینے والا، اور "فعّال "عربی زبان میں مبالغہ کیلئے استعمال ہوتا ہے، تو اللہ عز وجل بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے، وہ جسے چاہتا ہے اپنے بندو کو باری باری عطا کرتا جاتا ہے"

اور بلاشبہ "وہّاب" کا راستہ ہی حق کا راستہ ہے، جس میں کسی قسم کا جھول، اور جھوٹ نہیں ہے، اسی کو ماننے والی جماعت غالب اور کامیاب رہے گی، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَاور جو شخص اللہ ، اسکے رسول اور ایمان والوں سے دوستی رکھے ، تو بیشک اللہ کی جماعت ہی غالب ہوگی۔ [المائدة : 56]

اور فرمایا: أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَیہی اللہ کا گروہ ہے، خبردار! بیشک اللہ کا گروہ ہی فلاح پائے گا [المجادلة : 22]

پہلے دور میں شافعی رحمہ اللہ کو رافضی ہونے کا الزام دیا گیا تو انہوں نے یہ شعر کہتے ہوئے اسکی تردید کی تھی :

إن كان رفضاً حبّ آل محمد *** فليشهد الثقلان أني رافضي

اگر آل محمد سے محبت ہی رافضیت ہے تو [اے]جن و انس گواہ رہنا، پھر میں رافضی ہی ہوں۔

اور ہمیں "وہابی "ہونے کا طعنہ دینے والے کو ہم شیخ "مُلّا عمران"جو کہ پہلے شیعہ تھے ، تو اللہ تعالی نے انہیں ہدایت دی، اور سنی ہوگئے ،کے شعروں سے دیتے ہیں، انہوں نے کہا تھا:

إن كان تابع أحمد متوهّباً *** فأنا المقرّ بأنني وهّابي

اگر احمد [صلی اللہ علیہ وسلم ] کی تابع داری کرنے والا "وہابی" ہے تو میں اپنے وہابی ہونے کا اقرار کرتا ہوں

أنفي الشريك عن الإله فليس لي *** ربٌ سوى المتفرّد الوهّاب

میں اللہ تعالی سے ہر شریک کی نفی کرتا ہوں، چنانچہ میرے لئے اکیلئے وہّاب کے علاوہ کوئی رب نہیں ہے۔

نفر الذين دعاهم خير الورى *** إذ لقّبوه بساحرٍ كذّاب

جن لوگوں کو خیر الوری [صلی اللہ علیہ وسلم ] نے دعوت دی تھی وہ بھی آپکو جادو گر، و جھوٹے شخص کا لقب دیتے ہوئے چلا اٹھے تھے۔

دیکھیں: "منہاج الفرقۃ الناجيۃ " از: شيخ محمد جميل زينو ص : 142 – 143 )

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب