سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

تعاونى انشورنس كے حصص كى خريدارى كا حكم

36955

تاریخ اشاعت : 23-01-2006

مشاہدات : 9314

سوال

سعودى حصص ماركيٹ ميں پيش كيے جانے والے تعاونى انشورنس كمپنى كے حصص كى خريدارى كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

والصلاۃ والسلام على رسول اللہ.

اما بعد:

اللہ تعالى كى تعريف اور اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام كے بعد:

شرعى حكم كو ہم مندرجہ ذيل نقاط ميں مختصرا بيان كرتے ہيں:

1 - انشورنس كا شرعى حكم:

عصرحاضر كے عام علماء كرام تجارتى انشورنس كى حرمت اور تعاونى انشورنس كے جواز كے قائل ہيں.

يہ قول بڑى بڑى فتوى كميٹيوں نے ليا ہے، مثلا كبار علماء كميٹى سعودى عرب، مستقل فتوى كميٹى سعودى عرب، اور رابطہ عالم اسلامى مكہ مكرمہ كے تابع اسلامى فقہ اكيڈمى، اور موتمر اسلامى جدہ كے تابع انٹر نيشنل اسلامى فقہ اكيڈمى وغيرہ؛.

كيونكہ تجارتى انشورنس دھوكہ و فراڈ اور جوا اور باطل طريقہ سے مال ہڑپ كرنے پر مشتمل ہے، ليكن اس كے برعكس تعاونى انشورنس باہم تكافل و تضامن پر مشتمل ہے، آج انشورنس كے معاملہ ميں جو كچھ ہو رہا ہے اسے انصاف كى نظر سے ديكھنے والے كو اس قول ميں توسط اور اعتدال اور لوگوں كى ضروريات بغير كسى دھوكہ و فراڈ اور نقصان كے پورى كرنے كے شريعت اسلاميہ كے مقاصد كى موافقت كا ادراك ہوتا ہے.

اور انشورنس كے اعداد وشمار اور سروے بھى اس پر واضح شاہد ہيں، لہذا تجارتى انشورنس كے نظام ميں لمبى لمبى رقميں انشورنس كمپنيوں كے پاس جمع ہو جاتى ہيں، ليكن اس كے مقابلہ ميں جو معاوضہ لوگوں كو ديا جاتا ہے اگر اس كا مقارنہ اور موازنہ اس منافع كے ساتھ كيا جائے جو كمپنى كو حاصل ہوا ہے تو يہ بہت ہى قليل شمار ہوتا ہے، جس كے نتيجہ ميں انشورنس كى خدمات اور اس كے امتيازات صرف مالدار لوگوں كى اقليت كے ساتھ خاص ہو كر رہ جاتے ہيں، ليكن اس كے مقابلہ ميں فقير اور محتاج لوگ اكثريت ميں ہونے كے باوجود اس سے محروم رہتے ہيں، كيونكہ وہ انشورنس كى اقساط كى ادائيگى نہيں كرسكتے.

ان انشورنس كمپنيوں نے لوگوں كو يہ باور كرا ركھا ہے كہ خطرات صرف اسى طريقہ سے ختم ہو سكتے ہيں اور ان پر كنٹرول ہو سكتا ہے، حالانكہ تعاونى انشورنس كے تجربات اسے جھٹلاتے ہيں، تعاونى انشورنس كئى ايك ترقى يافتہ ممالك ميں لاگو كى گئى تو انشورنس كے اہداف كے ليے يہ تجارتى انشورنس كمپنيوں كى بنسبت زيادہ كامياب رہى.

2 - تجارتى انشورنس اور تعاونى انشورنس ميں فرق:

تجارتى انشورنس ميں انشورنس كمپنى كے ادارے كا ذمہ ان پر اعتماد اور بھروسہ كرنے والے ممبروں كے ذموں سے ايك مستقل حيثيت ركھتا ہے، اور يہ كمپنى استحقاق كے وقت انشورنس كى رقم ادا كرنے كے عوض ميں انشورنس كى سارى اور مكمل اقساط كى مستحق ہوتى ہے، اور كمپنى كے پاس قسطيں ادا كرنے والے كى جو رقم باقى بچتى ہے وہ ممبر كو واپس نہيں كى جاتى، كيونكہ يہ اس متفقہ معاوضہ كا عوض شمار ہوتا ہے، اور جب حاصل كردہ اقساط ہر قسم كے معاوضہ كو پورا نہ كرتى ہوں تو اس كمپنى كو يہ حق نہيں كہ وہ ممبران سے زيادہ اقساط كا مطالبہ كرے، اور يہ چيز بالكل دھوكہ كى تجارت اور باطل طريقہ سے لوگوں كا مال ہڑپ كرنا ہے جس سے منع كيا گيا ہے.

ليكن اس كے مقابلہ ميں تعاونى انشورنس ميں چند لوگ جمع ہوتے ہيں جنہيں چند متشابہ خطرات كا سامنا ہوتا ہے، اور ان ميں ہر ايك شخص ايك معين رقم كے ساتھ شريك ہوتا ہے، اور جمع كردہ يہ رقم نقصان اور ضرر پہنچنے والے شخص كو بطور معاوضہ دى جاتى ہے، اور اگر سب كى جمع كردہ رقم صرف كردہ معاوضہ سے زيادہ ہو تو وہ ممبران كا حق ہے وہ واپس لے سكتے ہيں، اور اگر وہ رقم معاوضہ سے كم ہو جائے، يا نقصان كے مقابلہ ميں معاوضہ كم ہو جائے تو ممبران كو اضافى رقم جمع كروانے كا كہا جاتا ہے، تاكہ اس كمى كو پورا كيا جاسكے.

اور اس ميں كوئى مانع نہيں كہ تعاونى انشورنس كا ادارہ ايك مستقل حيثيت ركھے اور وہ انشورنس كے معاملات كو چلانے كے ليے اجرت يا كميشن لے، اور اسى طرح اس ميں كوئى مانع نہيں كہ انشورنس كے اموال ميں سرمايہ كارى كے منافع سے كچھ حصہ سرمايہ كارى كرنے كے وكيل ہونے كى بنا پر كچھ رقم لے لے.

اس سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ دونوں قسموں ميں بعض اوقات انشورنس كمپنى انشورنس كروانے والوں سے منفصل اور عليحدہ ہوتى ہے، اور اسى طرح ان دونوں قسموں ميں ايك منافع بخش كمپنى بھى ہو سكتى ہے- يعنى وہ منافع كا ہدف ركھتى ہے- اور ان دونوں قسموں ميں دو اساسى اور بنيادى امور ميں فرق ظاہر ہوتا ہے.

پہلا فرق:

تجارتى انشورنس ميں انشورنس كمپنى اور انشورنس كروانے والے كے مابين معاہدہ كا التزام ہوتا ہے، كہ كمپنى انشورنس كروانے كو معاوضہ دينے كا التزام كرے گى، اور اس كے مقابلہ ميں ادا كردہ پورى قسطوں كى مستحق ہو گى.

ليكن تعاونى انشورنس ميں اس التزام كى كوئى مجال ہى نہيں، كيونكہ معاوضہ موجود اقساط كى مجموعى رقم ميں سے ادا ہو گا، اور اگر معاوضہ كے ليے سارى قسطيں كافى نہ ہوں تو ممبران سے فرق كے عوض ميں اضافى رقم طلب كى جائے گى، وگرنہ معاوضہ موجود رقم كے مطابق ہى ديا جائے گا.

دوسرا فرق:

تعاونى انشورنس كمپنى كا انشورنس كراونے والوں كى ادا كردہ اقساط اور كمپنى كى جانب سے نقصان كى مد ميں ادا كردہ معاوضے ميں فرق سے منافع كا ہدف نہيں ہوتا، بلكہ اگر نقصانات پورا كرنے كے ليے ادا كردہ معاوضہ سے قسطوں كى رقم زيادہ ہو تو باقى مانندہ رقم انشورنس كروانے والے كو واپس دى جاتى ہے.

ليكن تجارتى انشورنس ميں ( قسطوں كى ) جمع كردہ رقم انشورنس كروانے والوں كو معاوضہ دينے كا التزام كرنے كى بنا پر انشورنس كمپنى كا حق ہوتا ہے.

3 - وطنى تعاونى انشورنس كمپنى كے پچھلے تين برسوں كے مالى حساب و كتاب كى چھان بين كرنے سے واضح ہوا ہے كہ مندرجہ ذيل اسباب كى بنا پر اس كمپنى ميں بھى انشورنس كى رجسٹريشن كروانى جائز نہيں ہے:

اول:

كمپنى ميں تجارتى انشورنس كا معاہدہ ہے نہ كہ تعاونى انشورنس كا:

باوجود اس كے كہ كمپنى نے اس ميں شراكت كرنے والوں كے ليے مالى ادارے كو انشورنس كے اعمال كے مالى ادارہ سے عليحدہ قائم كيا ہے - جيسا كہ تعاونى انشورنس ميں ہوتا ہے- ليكن انشورنس كا نظام ايسے كام سرانجام دے رہا ہے جو تجارتى انشورنس ہونے سے خالى نہيں، بخلاف اس كے كہ جو كمپنى كے نام سے ظاہر ہوتا ہے، يہ سب كچھ مندرجہ ذيل نقاط ميں واضح ہوتا ہے:

ا - كمپنى كا اساسى اور بنيادى نظام يہ بيان كرتا ہے كہ انشورنس كمپنى كى جمع كردہ رقم جو سب مشتركين كى مجموعى رقم اور نقصانات كے مجموعى معاوضہ ميں فرق ہو گا اس كا دس فيصد انشورنس كروانے والے كو واپس كيا جائے گا، اور جمع كردہ رقم سے باقى مانندہ 90 % نوے فيصد رقم انشورنس كروانے والوں كے حقوق كا خطرات كے سامنا كرنے كے نتيجہ ميں شراكت داروں كے حصہ ميں سے ہو گى. ( كمپنى كے اساسى نظام كى شق نمبر 43 اور تعاونى انشورنس كمپنيوں كے مراقبہ كے تنفيذى نظام كى شق نمبر70 ) اس كا معنى يہ ہوا كہ كمپنى ميں انشورنس كا نظام التزام تعاقدى پر قائم ہے، تو اس طرح معاوضہ كا التزام كرنے كے عوض ميں شراكت دار اقساط كے مستحق ہونگے، اور يہى تجارتى انشورنس كى حقيقت ہے، اور جمع كردہ رقم كا ايك حصہ واپس كرنا تو صرف اس معاہدے كو شرعى رنگ دينے كى كوشش ہے، حالانكہ تعاونى انشورنس ميں تو يہ ضرورى اور واجب ہے كہ جمع كردہ سارى رقم انشورنس كروانے كے ليے ہو، اور يہ رقم انہيں واپس كى جائے، يا پھر انشورنس كے كاموں كے ليے احتياط كے حساب ميں ركھى جائے.

ب - جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى تطبيق كرتے ہوئے 2003 ميں كمپنى كا انشورنس كى معاملات سے جمع كردہ مال ( 178.914.000 ايك سواٹھتر ملين اور نو سو چودہ ہزار ريال ) تھى جس ميں سے انشورنس كروانے والوں كو ( 18.000.000 اٹھارہ ملين ريال ) واپس كيے گئے، يعنى سارى جمع كردہ رقم كا 10 % دس فيصد، اور اس ميں سے احتياطى رقم لينے كے بعد باقى رقم كو اجمالى جمع شدہ رقم ميں ڈال ديا گيا جو كمپنى كے پاس انشورنس كے معاملات كى بنا پر ( 548.452.000 پانچ سو اڑتاليس ملين اور چار سو باون ہزار ريال ) كى رقم ہوئى، كمپنى كے اساسى نظام كے مطابق جمع كردہ يہ سارى رقم شراكت داروں كا حصہ شمار ہو گى.

ث - انشورنس دوبارہ كرانے كے معاہدہ ميں يہ كمپنى انشورنس دوبارہ كرنے والى بعض دوسرى كمپنيوں سے مربوط ہے، اور يہ كمپنياں اكثر طور پر اجنبى ہيں، اور تجارتى انشورنس پر قائم ہيں، اور قابل التفات تو يہ ہے كہ انشورنس دوبارہ كرانے كى رقم انشورنس كى مجموعى اقساط كے نصف سے بھى زيادہ بنتى ہيں.

جو كچھ اوپر بيان ہوا ہے اس سے يہ واضح ہوتا ہے كہ انشورنس كى مجموعى اقساط ميں نصف سے زيادہ تو مملكت سعودى عرب سے باہر منتقل كر دى جاتى ہيں، اور تجارتى انشورنس كے معاہدے كا طريقہ يہى ہے.

دوم:

كمپنى كى بعض حرام كردہ اعمال ميں سرمايہ كارى:

كمپنى نے انشورنس كروانے والوں كے مال كى سرمايہ كارى حرام رسيدوں ميں كر ركھى ہے، اور ان رسيدوں كى قيمت 2003 كے مالى سال ميں ( 430.525.000 چار سو تيس ملين اور پانچ سو پچيس ہزار ريال ) تك جا پہنچى تھى، جو كہ انشورنس كے اجمالى عمل كے 24 % چوبيس فيصد كے برابر بنتا ہے.

اور ايسے ہى كمپنى نے شراكت داروں كے مال كى حرام رسيدوں ميں سرمايہ كارى كى جس كى قيمت 2003 كے مالى ميں ( 34.981.000 چونتيس ملين اور نو سو اكياسى ہزار ريال ) تك جا پہنچى، جو كہ شراكت داروں كے اجمالى حقوق كے 8 % آٹھ فيصد كے برابر ہے.

اس كے علاوہ كمپنى ايك تجارتى انشورنس كمپنى كے 50 % پچاس فيصد كى مالك بھى ہے.

1 - تعاونى انشورنس كو شرعى قوانين و ضوابط كے ساتھ متفق كرنے اور انشورنس كے اہداف پورے كرنے والى تجاويز:

ا - تعاونى انشورنس كے ادارے كى شراكت كمپنى بنائے جس ميں شراكت داروں كے ليے ايك مالى ادارہ ہو جو حقيقتا انشورنس كے عمل كے مالى ادارہ سے منفصل اور عليحدہ حيثيت كا ملك ہو.

ب - شراكت والى كمپنى انشورنس كى مجموعى اقساط سے دفترى اور اور كام كے اخراجات منہا كرنے كا حق ركھے، اور انشورنس كے كام كو بطور نيابت اور وكيل سرانجام دينے كے عوض ميں اجرت حاصل كرنے كى متقاضى ہے، اور اسى طرح كمپنى انشورنس كروانے والوں كے مال كو بھى كسى حلال اور مباح كام ميں سرمايہ كارى كرے، اور اس سے وہ شريك مضاربت ہونے كى بنا پر كچھ تناسب سے منافع لے.

ت - كمپنى كو حرام مثلا رسيدوں وغيرہ حرام كام ميں سرمايہ كارى سے اجتناب كرنا چاہيے، چاہے وہ سرمايہ كارى شراكت داروں كے ساتھ خاص ہو يا پھر انشورنس كے عمل كے ساتھ.

ث - كمپنى كا انشورنس كرانے والے كو دونوں قسموں جائز اور ممنوع ميں معاوضہ دينے كا التزام كرنا، جائز اس طرح كہ كمپنى امانت اور پيشہ ورى سے انشورنس كے كام سرانجام دے، جب بھى اس نے اس ميں كوئى كمى كى تو اس تقصير پر ہونے والے نقصان اور معاوضہ كى ذمہ دار كمپنى ہو گى، اور ممنوع اس طرح كہ كمپنى مطلقا معاوضہ دينے كا التزام كرے چاہے ضرر اور نقصان كمپنى كى طرف سے ہو يا كسى اور كى طرف سے، يہ تعاونى انشورنس كے قاعدہ سے معارض اور مخالف ہے، اور اس كے بدلے ميں كمپنى كو حق ہے كہ وہ انشورنس كى قسطوں سے احتياطى رقم جمع كرے، اور يہ احتياطى رقم شراكت داروں كے حقوق كے ساتھ خاص نہ ہو، بلكہ يہ انشورنس كے اعمال كے ساتھ خاص رہے.

ج - كمپنى خطرات كو ختم كرنے كے ليے انشورنس دوبارہ كرنے كے معاہدے سے اس شرط كے ساتھ مربوط ہو سكتى ہے كہ: يہ معاہدے تعاونى انشورنس كى طرح كے ہوں.

آخر ميں اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ كمپنى كے ذمہ داران كو ہر قسم كى بھلائى اورخير كے كاموں كى توفيق عطا فرمائے، اور ہميں اور انہيں اور سب مسلمانوں كو ايسے كام كرنے كى توفيق سے نوازے جو اللہ تعالى كو پسند ہوں اور جو اسے راضى كرنے كا باعث ہوں، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

دستخط كرنے والے علماء كرام:

1 - ڈاكٹر: محمد بن سعود العصيمى، مديد عام مجموعہ شرعيہ بنك البلاد.

2 - ڈاكٹر يوسف بن عبداللہ الشبيلى عضو ہئۃ التدريس معھد العالى للقضاء جامعۃ الامام رياض

3 - ا ڈاكٹر سليمان بن فھد العيسى، استاد دراسات العليا جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلاميۃ رياض

4 - ا ڈاكٹر صالح بن محمد السطان استاد فقہ جامعۃ القصيم

5 - ڈاكٹر عبد العزيز بن فوزان الفوزان استاد مشارك جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلاميۃ رياض

6 - ڈاكٹر عبد اللہ بن موسى العمار استاد مشارك جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلاميۃ رياض

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب