الحمد للہ.
مسلمانوں کا اجماع ہے کہ نماز تراویح ادا کرنا سنت ہے ، جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے بھی اپنی کتاب " المجموع " میں بھی اس کا ذکر کیا ہے ۔
اوراسی طرح نماز تراویح کی ادائيگي میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رغبت دلاتے ہوئے فرمایا :
( جس نے بھی رمضان المبارک میں ایمان اوراجرو ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 37 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 760 ) ۔
تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس فعل پر عمل کے ساتھ ترغیب اورمسلمانوں کا نماز تراویح کے استحباب پر اجماع ہونے کے باوجود نماز تراویح بدعت کیسے ہوسکتی ہے ؟
اوریہ ہوسکتا کہ جس نے اسے بدعت کہا ہو وہ مساجد میں باجماعت ادائيگي کو بدعت قراردیتا ہو ۔
لیکن یہ قول بھی صحیح نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحابہ کرام کوکچھ راتیں اس کی جماعت کروائي تھی ، پھر اسے باجماعت اس لیے ترک کیا کہ کہيں تروایح کی جماعت مسلمانوں پر فرض ہی نہ ہوجائے ، لھذا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے اورفرض ہونے کا خطرہ جاتا رہا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی چيز کا فرض ہونا ممکن نہيں رہا ۔
اسی لیے عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے مسلمانوں کو ایک قاری پر جمع کردیا اورانہيں باجماعت نماز تراویح پڑھنے کا کہا ۔
آپ اس کی مزيد تفصیل دیکھنے لیے سوال نمبر ( 21740 ) کے جواب کا مطالعہ کریں ۔
اورنماز تروایح کا وقت نماز عشاء کے بعد سے لیکر طلوع فجر تک رہتا ہے ، آپ کو اس کی تفصیل سوال نمبر ( 37768 ) کے جواب میں ملے گی آپ اسے ضرور دیکھیں ۔
اور نماز تراویح کی تعداد متعین نہيں ہے بلکہ کم یا زيادہ پڑھنا جائز ہیں ، اور سائل نے جو دو صورتیں سوال میں ذکر کی ہیں وہ دونوں جائز ہيں ، یہ مقتدیوں پر ہے کہ وہ رات کے شروع میں پڑھیں یا آخر میں جو بھی انہيں مناسب معلوم ہوتا ہو اس پر عمل کریں ۔
لیکن افضل یہی ہے کہ سنت پر عمل کیا جائے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جوتعداد ثابت ہے اسی پر عمل کیا جائے اورافضل بھی یہی ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان اورغیررمضان میں کبھی بھی گيارہ رکعات سے زيادہ ادا نہيں کی تھیں ۔
شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی نے نماز تروایح میں رکعات کی تعداد ذکر کرنے کے بعد کہا ہے :
اس معاملہ میں وسعت پائي جاتی ہے ، بلکہ جوگیارہ رکعت ادا کرتا ہے یا جو تئيس رکعات ادا کرے اسے غلط نہيں کہنا چاہیے ، بلکہ الحمد للہ اس میں وسعت پائي جاتی ہے ۔ ا ھـ
دیکھیں فتاوی الشيخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی ( 1 / 407 ) ۔
آپ مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 9136 ) کے جواب کا مطالعہ ضرور کریں ۔
واللہ اعلم .