الحمد للہ.
نماز تراویح کے دوران بعض آئمہ مساجد اورواعظین حضرات کا درس دینے میں انشاء اللہ کوئي حرج نہيں ، بہتر یہ ہے کہ اس پر ہمیشگی نہ کی جائے تاکہ بعض لوگ یہ خیال نہ کرنے لگيں کہ یہ بھی نماز کا ایک حصہ ہے ، اوروہ اس کےوجوب کا اعتقاد رکھنا شروع کردیں اورجوکوئی ایسا نہ کرے اسے غلط کہنے لگيں ۔
امام یا پھر تقریر کرنے والے کوچاہیے کہ وہ لوگوں کو شرعی احکام سے آگاہ کرے اورخاص کر انہيں جن احکام کی اس ماہ مبارک میں ضرورت پیش آتی ہو وہ بیان کرے اوربعض اوقات اسے تقریر نہيں بھی کرنی چاہیے جیسا کہ اوپر بیان بھی کیا گيا ہے ۔
اس میں کوئي شک وشبہ نہيں کہ اس کام میں دنیاوی باتوں اورآواز بلند کرنے سے زيادہ نفع ہے اورغلط باتوں سے پرہیز ہوتی ہے ، اوراس بدعتی ذکر سےبہتر ہے جو آج کل کچھ امام چار رکعات کے بعد کرنے لگتے ہیں ۔
شیخ عبداللہ بن جبرین حفظہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
۔۔۔۔ جبکہ آج کل لوگ نماز ہلکی پڑھنے لگے ہیں اورپوری تراویح ایک گھنٹہ یا اس سے بھی کم وقت میں ادا کرلی جاتی ہيں اس لیے چار رکعات کے بعد اس آرام کی ضرورت ہی نہيں رہتی ، کیونکہ اس سے توکوئی تھکاوٹ ہی پیدا نہیں ہوتی اورنہ ہی اس میں مشقت ہے ۔
لیکن اگر کچھ امام چار رکعات کے بعد بیٹھ کر یا پھر کچھ راحت کرنے کےلیے وقفہ کرتے ہیں تو بہتر ہے کہ اس وقفہ اوربیٹھنے کے وقت کو کسی نصیحت یا پھر کسی مفید کتاب کے پڑھنے میں صرف کیا جائے یا پھر جوآیات پڑھی گئي ہیں ان کی تفسیر بیان کی جائے اوروعظ کیا جائے ، یا کچھ احکام ہی بیان کر دیے جائيں ، تا کہ لوگ باہر نہ نکل جائيں اورکہیں انہیں اکتاہٹ ہی نہ ہوجائے ۔ واللہ تعالی اعلم ۔
دیکھیں : الاجابات البھیۃ فی المسائل الرمضانیۃ ( دوسرا سوال )
واللہ اعلم .