الحمد للہ.
" جس شخص نے تجارت كے ليے يا ركھنے كے ليے مال خريدا ہو اس كے ليے اس وقت يا ادھار خريدى ہوئى قيمت سے زيادہ ميں فروخت كرنا جائز ہے، اس كے نفع ميں ہمارے علم كے مطابق تو كوئى حد نہيں ہے، ليكن تخفيف اور آسانى ضرور ہونى چاہيے؛ كيونكہ ايسا كرنے كى ترغيب وارد ہے، ليكن اگر علاقے ميں كسى چيز كى قيمت معروف ہو تو مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ كسى جاہل كو اس قيمت سے زائد پر فروخت كرے، ليكن اگر وہ اسے حقيقت كا بتا دے تو پھر ٹھيك ہے؛ كيونكہ اس كا اس قيمت سے زائد ميں فروخت كرنا دھوكہ كى ايك قسم شمار ہوگا.
اور پھر مسلمان تو دوسرے مسلمان شخص كا بھائى ہے، نہ تو وہ خود اس پر ظلم كرتا ہے، اور نہ ہى كسى دوسرے كے سپرد كرتا ہے كہ اس پر ظلم كرے، اور نہ ہى اسے دھوكہ ديتا ہے، اور نہ اس سے خيانت كرتا ہے، بلكہ جہاں بھى ہو وہ اپنے بھائى كى خيرخواہى كرتا ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" دين خير خواہى كا نام ہے "
اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.
اور صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں عبد اللہ يمانى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ اس پر بيعت كى كہ نماز قائم كرونگا اور زكاۃ كى ادائيگى كرتا رہونگا، اور ہر مسلمان كى خيرخواہى كرونگا " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 89 )
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے كہ:
" تجارت ميں نفع محدود نہيں، بلكہ يہ مال كى كثرت و قلت ميں طلب اور پيشكش كے حالات پر منحصر ہے، ليكن مسلمان يا دوسرے تاجر كے ليے بہتر يہى ہے كہ وہ اپنى خريدوفروخت ميں لوگوں پر آسانى اور سہولت كرنے والا ہو، اور خريدار يا فروخت كرنے والے كى غفلت كو فرصت سمجھ كر اس سے دھوكہ نہ كرتا پھرے، بلكہ وہ اخوت اسلامى كے حقوق كا خيال ضرور ركھے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 91 )
واللہ اعلم .