الحمد للہ.
چودہ سو سال سے مسلمانوں كا عمل اسى پر ہے كہ عورت مؤذن كا منصب نہيں سنبھال سكتى، صرف يہ منصب مردوں كے ليے ہى مختص ہے، مردوں كے ليے عورت كى اذان دينے ميں صرف يہى ايك دليل كافى ہے، اور اس كى مخالفت مؤمنوں كى راہ كى مخالفت ہے.
اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى ہدايت واضح ہو جانے كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى مخالفت كرے، اور مؤمنوں كى راہ كے علاوہ كسى اور كى راہ پر چلے تو ہم اسے اسى طرف پھير دينگے جس طرف وہ پھرا ہے، اور اسے جھنم ميں پھينگے گے اور يہ بہت ہى برى جگہ ہے النساء ( 115 ).
اور پھر يہ معاملہ تو اس كے ليے استدلال اور دليل سے بھى زيادہ واضح ہے، مگر يہ كہ اگر ايسے لوگ موجود نہ ہوں جن كى بصيرت اللہ تعالى نے مٹا دى ہوئى ہے، اور وہ ايسے معاملات ميں جھگڑا كرنے لگے ہيں جو اس دين كے ثوابت ميں شامل ہوتے ہيں.
اس پر سنت ميں سے درج ذيل احاديث ہيں:
1 - امام بخارى اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:
" جب مسلمان مدينہ آئے وہ جمع ہو كر نماز كے وقت كا اندازہ لگاتے، نماز كے ليے اذان نہيں ہوتى تھى، چنانچہ ايك روز اس ميں انہوں نے بات چيت كى تو كچھ لوگوں نے كہا: عيسائيوں كى طرح ناقوس استعمال كرو، اور بعض كہنے لگے: بلكہ يہوديوں كى طرح بگل بجايا كرو، چنانچہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:
كيا تم كسى شخص كو كيوں نہيں بھيجتے جو نماز كى ليے منادى كرے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
بلال كھڑے ہو كر نماز كے ليے منادى كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 604 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 377 ).
يہ حديث اس بات كى دليل ہے كہ صحابہ كرام كے ہاں يہ بات مقرر شدہ تھى كہ نماز كے ليے مردوں كے علاوہ كوئى اور اذان نہيں دے سكتا، اور يہ كہ اس ميں عورتوں كا كوئى دخل نہيں، كيونكہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا كہنا تھا:
" تم كسى آدمى كو كيوں نہيں بھيجتے جو نماز كے ليے منادى كرے؟ "
2 - امام بخارى اور امام مسلم نے ہى سھل بن سعد الساعدى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كسى كو نماز ميں كچھ شك پيدا ہو جائے تو وہ سبحان اللہ كہے، كيونكہ جب وہ سبحان اللہ كہے گا تو اس كى طرف متوجہ ہوا جائيگا، اور تالى تو عورتوں كے ليے ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 684 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 421 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" عورتوں كو سبحان اللہ كہنے سے اس ليے منع كيا گيا كہ انہيں تو مطلقا نماز ميں آواز پست ركھنے كا حكم ہے، كيونكہ فتنہ كا خدشہ ہے " انتہى
چنانچہ جب امام اگر نماز ميں بھول جائے اور غلطى كر بيٹھے تو عورت كے ليے امام كو متنبہ كرنے سے منع كيا گيا ہے، حتى كہ مردوں كى موجودگى ميں اپنى آواز بلند نہ كرے، تو پھر اسے اذان دينے كى اجازت كيسے دى جا سكتى ہے ؟!
علماء كرام كا اتفاق ہے كہ عورت مردوں كے ليے اذان نہيں دے سكتى اس كے ليے يہ مشروع نہيں، ذيل ميں ہم بعض اقوال كا ذكر كرتے ہيں:
احناف كى كتاب البدائع والصنائع ميں ہے:
متفقہ روايات كے مطابق عورت كے ليے اذان دينا مكروہ ہے "
ديكھيں: بدائع الصنائع ( 1 /411 ).
اور مالكيہ كى كتاب: مواھب الجليل ميں ہے:
" عورت كى اذان صحيح نہيں ہو گى " انتہى
ديكھيں: مواھب الجليل ( 2 / 87 ).
اور امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كتاب الام ميں كہتے ہيں:
" اور عورت اذان نہيں دے گى، اور اگر وہ مردوں كے ليے اذان ديتى ہے تو ان كى جانب سے اس عورت كى اذان كفائت نہيں كرے گى " انتہى
ديكھيں: الام للشافعى ( 1 / 84 ).
اور حنابلہ كى كتاب: الانصاف ميں ہے:
" عورت كى اذان شمار نہيں كى جائيگى " انتہى
ديكھيں: الانصاف ( 1 / 395 ).
واللہ اعلم .