سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

مصنوعى پلكيں لگانے كا حكم

39301

تاریخ اشاعت : 29-03-2011

مشاہدات : 9864

سوال

كيا عورت مصنوعى پلكيں استعمال كر سكتى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عورت كے ليے مصنوعى پلكيں لگانى حرام ہيں، كيونكہ يہ وصل شعر يعنى بالوں كے ساتھ دوسرے بال ملانے ميں شامل ہوتا ہے جس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت فرمائى ہے.

بخارى اور مسلم نے اسماء بنت ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:

" ايك عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كرنے لگى:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: ميرى شادى شدہ بيٹى ہے، اور اسے خسرہ كى بيمارى ہوگئى جس كى بنا پر اس كے بال گر گئے ہيں، تو كيا ميں اس كے بال اور ملا لوں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى نے بال ملانے اور بال ملوانے والى پر لعنت كى ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5479 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2122 ).

بخارى اور مسلم نے ہى عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ:

ايك انصارى لونڈى نے شادى كى اور وہ بيمار ہو گئى تو اس كے بال گر گئے تو انہوں نے اس كے بال لگانا چاہے ( اور بال ملانا چاہے ) اور اس كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بال ملانے اور ملوانے والى پر لعنت كى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5205 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2123 ).

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

تمزق: يعنى بال گر گئے.

الواصلۃ: وہ عورت جو بالوں كے ساتھ دوسرے بال ملائے، اور المستوصلۃ: وہ عورت ہے جو ايسا كروائے، اور اسے موصلۃ بھى كہتے ہيں، يہ احاديث بالوں كے ساتھ دوسرے بال ملانے كى صريحا حرمت اور بال ملانے اور ملوانے والى پر مطلقا لعنت پر دلالت كرتى ہيں، يہى ظاہر اور مختار بھى ہے. اھـ

اور نقلى اور مصنوعى پلكيں بھى اس معنى كو پورا كرتى ہيں، اور يہ بھى بالوں كو ملانا ہى ہے، كيونكہ اصلى پلكوں كے ساتھ نقلى اور مصنوعى پلكيں ملائى جاتى ہيں.

اور يہ بھى كہ: بعض ڈاكٹر حضرات نے بيان كيا ہے كہ مصنوعى اور نقلى پلكيں مستقل طور پر جلد اور آنكھ ميں الرجى پيدا كر ديتى ہيں، اور انكھوں ميں جلن ہونا شروع ہو جاتى ہے، اور پھر پلكيں گر جاتى ہيں، تو اس طرح اس كے استعمال ميں ضرر اور نقصان بھى ہے اور پھر شريعت نے اس سےمنع كيا ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" نہ تو كسى كو نقصان دو، اور نہ خود نقصان اٹھاؤ "

ديكھيں: زينۃالمراۃ بين الطب و الشرع ( 33 ).

مسلمان عورت كو متنبہ كرنا ضرورى ہے كہ وہ اس طرح كے امور كا اہتمام مت كرے، كيونكہ اس سے قيمتى وقت اور مال ضائع ہوتا ہے، جسے مسلمانوں كے كسى فائدہ ميں صرف كيا جا سكتا تھا، اور خاص كر ان اوقات ميں جبكہ عزم كمزور ہو چكے ہيں، اور ہمتوں ميں فتور آ چكا ہے، اور عورت اپنے اصل كام سے ہٹ چكى ہے جو كہ نئى نسل كى تربيت تھا، اس نے اسے چھوڑ كر اس طرح كے كاموں كا اہتمام كرنا شروع كر ديا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب