الحمد للہ.
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جب رمضان المبارک آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہيں اورجہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اورشیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1899 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1079 ) ۔
شیطانوں کے جکڑے جانے کے معنی میں علماء کرام نے کئی ایک معنی کیے ہیں :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے الحلیمی سے نقل کیا ہے کہ :
یہ احتمال ہوسکتا ہے کہ جس طرح وہ عام دنوں میں مسلمانوں کوگمراہ کرسکتے ہیں رمضان میں نہیں کرسکتے کیونکہ وہ روزہ میں مشغول ہوتے ہیں جوشھوات کوختم کردیتا ہے اورقرآن مجید کی تلاوت اورذکر واذکارمیں مشغول رہنے کی بنا پر گمراہ ہونے سے بچ جاتے ہیں ۔
اورالحلیمی کے علاوہ دوسروں کا کہنا ہے کہ : اس سے بعض شیطان مراد ہیں جوکہ زيادہ سرکش قسم کے ہوں انہیں جکڑا جاتا ہے ۔۔۔۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ( صفدت ) یعنی زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے ہیں ۔۔۔۔
اورقاضي عیاض رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : یہ احتمال بھی ہےکہ اسے ظاہر اورحقیقت پر محمول کیا جائے ، اوریہ سب کچھ فرشتوں کے رمضان المبارک کے شروع ہونے کی علامت اوراس کی حرمت کی تعظيم اورشیطانوں کا مؤمنوں کواذیت دینے سے منع کرنا ہے ۔
یہ بھی احتمال ہے کہ اس میں اجروثواب کی کثرت کا اشارہ ہو اورشیطانوں کا لوگوں کوگمراہ کرنا کم ہونے کی بنا پر وہ جکڑے ہوؤں کی طرح بن جائيں ۔
اس دوسرے احتمال کی تائيد مندرجہ ذیل مسلم کی روایت سے بھی ہوتی ہے :
یونس بن شھاب بیان کرتے ہیں کہ : رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، یہ بھی احتمال ہے کہ ۔۔۔۔۔ کہ شیطان لوگوں کوگمراہ کرنے اوران کے لیے شھوات کومزین کرنے سے عاجز ہونے کی بنا پر انہیں جکڑے ہوئے کہا گيا ہے۔
زين بن المنیر کہتے ہيں کہ پہلا معنی زيادہ اولی ہے اورالفاظ کو ظاہری معنی میں نہ لینے کی کوئي وجہ نظر نہیں آتی اور نہ ہی ضرورت ہے ۔
دیکھیں فتح الباری ( 4 / 114 ) ۔
شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذيل فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا معنی پوچھا گيا :
( اورشیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ) ۔
اس فرمان کے باوجود ہم دیکھتے ہيں کہ ماہ رمضان میں دن کے وقت بھی بہت سے لوگ جنوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں ، تولوگوں کے اس دوروں کے باوجود شیطان کا جکڑا جانا کس طرح ہوگا ؟
توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
بعض روایات میں ہیں کہ : ( اس میں سرکش قسم کے شیطان جکڑے دیے جاتے ہیں ) ( یا انہیں بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں ) امام نسائی رحمہ اللہ تعالی نے اسے روایت کیا ہے ۔
اس طرح کی احادیث امور غیبیہ میں شامل ہوتی ہيں جن کے بارہ میں ہمارا موقف یہ ہے کہ انہيں تسلیم کرنا چاہیے اوران کی تصدیق کرنا ضروری ہے ، اورہمیں اس میں کچھ بھی کلام نہیں کرنی چاہیے ، کیونکہ اسی میں انسان کے دین اوراس کے انجام کی بہتری ہے ۔
اسی لیے جب عبداللہ بن امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی سے اپنے والد احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کو کہا کہ :
ماہ رمضان میں بھی انسان کو جن چمٹ جاتے ہیں اوروہ ان کے چنگل میں پھنس جاتا ہے ، توامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی نے جواب میں کہا : حدیث یہی کہتی ہے اوراسی طرح حدیث میں وارد ہے ، ہم اس میں کوئي کلام نہيں کرسکتے ۔
پھرظاہر تو یہی ہےکہ انہيں لوگوں کو گمراہ کرنے سے جکڑا جاتا ہے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ رمضان میں خیروبھلائي کی کثرت ہوتی ہے اوراکثر لوگ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے لگتے ہیں ۔ انتھی
دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 20 ) ۔
تواس بناپر ہم یہ کہيں گے کہ شیطانوں کا جکڑا جانا حقیقی ہے جسے اللہ تعالی ہی جانتا ہے ، اوراس سے یہ لازم نہیں آتا کہ شر وبرائي کا وقوع ہی نہ ہو یا پھر لوگ معاصی و گناہ نہ کریں ۔
واللہ تعالی علم ۔
آپ مزيد تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 12653 ) کے جواب کا مطالعہ ضرور کریں ۔
واللہ اعلم .