سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

خاوند سے خيانت كى اور اس پر جادو كيا تو خاوند اپنے خاندان كے خلاف ہوگيا

39795

تاریخ اشاعت : 13-04-2007

مشاہدات : 7336

سوال

ميرے بيٹے نے ايك غلط اور برى عورت سے شادى كر لى جس نے اس پر جادو كر ديا، اور وہ اپنے خاندان كے خلاف ہوگيا، اور بيوى كى ہر فرمائش پورى كرنے لگا، چاہے وہ كيسى بھى ہو، امر بالمعروف كميٹى كے اركان نے اس عورت اور اس كے عاشق كو رنگے ہاتھوں گرفتار كر ليا اور اس كا جرم بھى ثابت ہوگيا، ليكن اس كے باوجود ميرا بيٹا اسے طلاق نہيں ديتا بلكہ ہر وقت اس كا دفاع كرتا رہتا ہے.
ہم اس كے گھر گئے تو ہميں كئى عجيب و غريب اشياء مليں، المارى كے اوپر قرآن مجيد پر جوتا ركھا ہوا پايا ( نعوذ باللہ ) اور اسى طرح اور بھى اشياء مليں، اس عورت كى كئى ايك نوكرانياں بھى ہيں جو ايسى ملك سے تعلق ركھتى ہيں جو جادوگروں ميں مشہور ہے، جس سے ہميں يقين ہو گيا كہ اس عورت نے ہمارے بيٹے پر جادو كر ركھا ہے، بيٹے كو ليكر ايك شيخ كے پاس دم كروانے كے ليے گئے تواس پر جادو كى علامتيں ظاہر ہوئيں، اور اب وہ علاج كرانے سے بھى انكار كر رہا ہے، اور ہمارى بات تسليم نہيں كرتا كہ اسے جادو كيا گيا ہے، ہميں اس سلسلے ميں كيا كرنا چاہيے ؟
كيا ہم اس كا جادو ختم كروانے كے ليے كسى جادوگر كے پاس لے جائيں ؟
اس كا والد فوت ہو چكا ہے، اور اب وہ باپ كى وراثت ميں سے اپنا حصہ مانگ رہا ہے، كيا اسے ہم اس كا حصہ دے ديں، حالانكہ اس پر جادو كيا گيا ہے، اور وہ مال ضائع كر ديگا، اس عورت نے اس كا سارا مال چھين كر اسے جادو ٹونے پر ضائع كر ديا ہے، يہ علم ميں رہے كہ اس كى اولاد بھى ہے جنہيں اس مال كى ضرورت ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ آپ كے بيٹے كو جو كچھ ہوا ہے وہ تمہارے ليے ايك آزمائش سے كم نہيں، ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو صبر جميل عطا فرمائے، اور آپ لوگوں كو اپنے دين پر ثابت قدم ركھے، اسى طرح ہمارى يہ بھى دعا ہے كہ اللہ تعالى اسے شفاء نصيب فرمائے ظاہر تو يہى ہوتا ہے وہ جادو كے زير اثر ہے، اس ليے آپ كو اس كے تصرفات اور اعمال پر جو وہ آپ كے ساتھ كرتا ہے اس كا مؤاخذہ نہيں كرنا چاہيے، كوئى بھى عقل مند شخص اس پر راضى نہيں ہوتا كہ وہ اپنى بيوى كے ايسے فعل كو معلوم كرنے كے بعد اس پر خاموش رہے، ليكن ايسا لگتا ہے كہ جادو نے اس پر بہت زيادہ اثر كيا ہے، جس كى بنا پر وہ اپنى بيوى كا ساتھ دينے لگا ہے، اور آپ لوگوں كے خلاف ہو چكا ہے.

سوال نمبر ( 11290 ) كے جواب ميں جادو كا علاج جادو سے كرانے كى حرمت بيان كى جا چكى ہے، اور سوال نمبر ( 12918 ) كے جواب ميں جادو كا شرعى علاج بيان كيا گيا ہے، آپ ان دونوں كا مطالع كريں.

آپ كے يہ بھى ممكن ہے كہ اپنے بيٹے كو پانى پر دم كر كے پلائيں اور اس كا علم نہ ہونے ديں، اس كا علاج كرانے كے ساتھ ساتھ آپ اس كے ليے ہميشہ دعا بھى كرتے رہيں، اميد ہے اللہ تعالى اس كى تكليف دور كر ديگا.

دوم:

آپ كے بيٹے كا وراثت سے حصہ اس وقت تك موقوف ہے جب تك وہ مال ميں حسن تصرف نہيں كرتا، يعنى وہ مال كو اچھى طرح استعمال نہيں كرسكتا، اور جب وہ اسے اچھى طرح استعمال كرنے پر قادر ہو تو اسے اس كا حصہ ديا جائے، اور اگر مال اس كے يا اس كى بيوى كے ہاتھ لگ جائے اور وہ اس ميں حسن تصرف نہيں كر سكتا تو پھر آپ كے ليے اسے مال دينا جائز نہيں، بلكہ وہ اپنے پاس ركھيں، اور اس مال ميں سے اس كا اور اسكى اولاد كا خرچہ كريں، اور يہ مال آپ كے پاس اس كى امانت ہے اس ميں زيادتى كرنا آپ كے ليے صحيح نہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور بے عقل لوگوں كو اپنا مال نہ دے دو جس مال كو اللہ تعالى نے تمہارى گزران قائم ركھنے كا ذريعہ بنايا ہے، ہاں انہيں اس مال سے كھلاؤ، پلاؤ، اور انہيں لباس مہيا كرو، اور انہيں معقوليت سے نرم بات كہو، اور يتيموں كو ان كے بالغ ہونے كى حد تك سدھارتے اور آزماتے رہو، حتى كہ جب تم ان ميں حسن تدبير پاؤ تو انہيں ان كا مل سونپ دو، اور ان كے بڑے ہو جانے كے ڈر سے ان كا مال جلدى جلدى فضول خرچيوں ميں تباہ نہ كر دو، اور جو كوئى مالدار ہو وہ ( ان كے مال سے ) بچتا رہے، اور جو كوئى فقير اورتنگ دست اور محتاج ہو تو وہ دستور كے مطابق واجبى طور سے كھا لے، اور پھر جب تم انہيں ان كا مال دينے لگو تو اس كے گواہ بنا لو، اور اللہ تعالى ہى حساب لينے والا كافى ہے النساء ( 5 - 6 ).

الشيخ عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

السفھاء سفيہ كى جمع ہے، اور سفيہ يعنى بے وقوف اسے كہتے ہيں جو اپنے مال ميں حسن تدبير نہ كر سكتا ہو، يا تواپنى كم عقلى كى بنا پر جيسا كہ مجنون اور پاگل ہوتا ہے، يا پھر عقل كى عدم پختگى كى وجہ سے، جيسا كہ ابھى چھوٹا بچہ اور عقل ميں پختہ نہ ہو، تو اللہ سبحانہ وتعالى نے اولياء كو منع كيا ہے وہ اس قسم كے لوگوں كو ان كا مال نہ ديں، تا كہ كہيں وہ اسے ضائع اور برباد نہ كر ديں.

كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے مال بندوں كى گزران كا ذريعہ بنايا ہے جس سے وہ اپنى دنياوى اور دينى مصلحتيں پورى كرتے ہيں، اور يہ لوگ نہ تو اس كى اچھى طرح حفاظت كر سكتے ہيں، اور نہ ہى اس ميں حسن تدبير اور حسن تصرف، تو اللہ سبحانہ وتعالى نے ولى كو حكم ديا ہے كہ وہ ان كا مال ان كے ہاتھ ميں نہ ديں، بلكہ ان پر خرچ كريں، اور انہيں ان كا لباس مہيا كريں، اور اس مال ميں سے ان كى ضروريات پورى كريں، چاہے دينى ضروريات ہوں يا دنياوى، اور انہيں اچھى اور بہتر بات كہيں، كہ جب وہ مال طلب كريں تو انہيں يہ كہيں كہ جب وہ بڑے اور عقل مند ہو جائينگے تو انہيں ان كا مال واپس كر ديا جائيگا، اور اس طرح كى كوئى اور نرم بات كريں تا كہ وہ برا محسوس نہ كريں.

اللہ تعالى نے مال كى اضافت اولياء كى طرف كرتے اس طرف اشارہ كيا ہے ان كے ليے ان سفھاء كے اموال ميں وہى كچھ كرنا ضرورى ہے جو كچھ وہ اپنے مال ميں كرتے ہيں، يعنى اس كى حفاظت كريں، اور اس ميں تصرف كريں اور اسے خطرہ ميں مت ڈاليں.

اور آيت ميں اس بات كى دليل پائى جاتى ہے كہ مجنون، اور چھوٹے بچے، اور بےوقوف كا خرچ ان كے مال سے ہى كيا جائيگا اگر ان كا مال ہو تو پھر، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور انہيں كھلاؤ پلاؤ، اور انہيں لباس مہيا كرو . "

التفسير السعدى.

اور معاملہ شرعى عدالت كے سامنے ركھنا چاہيے، اور دليل دينى چاہيے كہ يہ بچہ اپنے مال ميں حسن تصرف اور حسن تدبير نہيں كر سكتا تا كہ شرعى عدالت اس پر پابندى لگائى اور اس كے ولى كى تعيين كر سكے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب