الحمد للہ.
كيفے كے مالك نے اپنے اس كيفے ميں حرام اشياء كى فروخت منع كر كے ايك اچھا اور بہتر قدم اٹھايا ہے، جس ميں سگرٹ كى فروخت بھى شامل ہے، اور اسى طرح اس نے اسلامى آداب كے منافى اور اس ميں مخل ہونے والے كام بھى منع كر ركھے ہيں، اللہ تعالى اسے جزائے خير عطا فرمائے.
ليكن اس كے ليے ايك چيز كرنا باقى ہے كہ وہ مرد و عورت كا اختلاط بھى روك دے؛ كيونكہ اس ميں شر و فساد اور فتنہ و خرابياں پائى جاتى ہيں، اور پھر قرآن و حديث تو اختلاط كى حرمت پر دلالت كرتے ہيں، جن ميں سے چند ايك دلائل ذيل ميں پيش خدمت ہيں:
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور جب تم ان ( نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى بيويوں ) سے كوئى چيز مانگو تو پردے كے پيچھے سے طلب كرو، تمہارے اور ان كے دلوں كے ليے كامل پاكيزگى يہى ہے الاحزاب ( 53 ).
ابن كثير رحمہ اللہ تعالى اس آيت كى تفسير ميں كہتے ہيں:
( يعنى جس طرح ميں نے تمہيں ان كے پاس داخل ہونے سے منع كيا ہے، اسى طرح تم بالكل ان كى طرف ديكھو بھى نہ، اور اگر تم ميں سے كسى ايك كو كوئى ضرورت اور حاجت ہو جو ان سے لينا چاہے تو وہ ان كى طرف نہ ديكھے، اور اپنى ضرورت كى چيز پردے كے پيچھے سے طلب كرے ).
اور قرطبى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
( اس آيت ميں دليل ہے كہ اللہ تعالى نے ان سے پردے كے پيچھے سے سوال كرنے كى اجازت دى ہے، كہ اگر كوئى ضرورت پيش آجائے يا كوئى مسئلہ پيش آجائے جس ميں ان سے فتوى لينا ہو تو پردے كے پيچھے سے پوچھا جاسكتا ہے.
اور اس ميں بالمعنى سب عورتيں داخل ہيں، اور اس ليے كہ شرعى اصول ہے كہ عورت سارى كى سارى پردہ ہے ).
اور ايك دوسرے مقام پر فرمان بارى تعالى ہے:
اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى بيويو! تم عام عورتوں كى طرح نہيں اگر تم پرہيزگارى اختيار كرو تو نرم لہجے ميں بات نہ كرو كہ جس كے دل ميں روگ اور كجى ہو وہ كوئى برا خيال كرے اور ہاں قاعدے كے مطابق اچھى اور بہتر بات كرو¬ الاحزاب ( 32 ).
لھذا جب كلام ميں نرمى اختيار كرنے سے روك ديا گيا تا كہ جس كے دل ميں بيمارى ہے وہ كوئى اور خيال نہ كرنے لگے، تو پھر مردوں كا بے پرد اور مائل كرنے اور مائل ہونے والى عورتوں كے ساتھ بيٹھنا، اور آپس ميں تبادلہ خيال اور گپيں ہانكنا كيسا ہے؟ يہ عورت بات كر رہى ہے، اور دوسرى ہنسى مذاق، اور تيسرى جھك ديكھ رہى ہے، تو اس سے بڑھ كر اور كونسا فتنہ ہوگا؟ اس كےہوتے ہوئے كونسا ايسا دل ہے جو بيمارى اور طمع و لالچ سے بچ سكے؟!
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےتو زمين ميں اللہ تعالى كو سب سے زيادہ محبوب اور پيارى جگہ مسجدوں ميں بھى مرد و عورت كے اختلاط كو منع كرنے كا خيال ركھتے ہوئے مردوں كى صفيں عورتوں كى صفوں سے عليحدہ بنانے كا حكم ديا، اور مردوں كو حكم ديا كہ نماز ميں سلام پھيرنے كے بعد بيٹھے رہيں حتى كہ عورتيں وہاں سے چلى جائيں، اور مساجد ميں عورتوں كے ليے عليحدہ دروازہ مخصوص كيا، اس كے دلائل ذيل ميں ديے جاتے ہيں:
1 - ام سلمۃ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ نماز سے سلام پھيرتے تو ان كى سلام مكمل ہوتے ہى عورتيں اٹھ پڑتيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اٹھنے سے قبل كچھ دير ٹھرے رہتے، ابن شہاب كہتے ہيں: ميرا خيال ہے كہ - واللہ اعلم - نبى كريم صلى اللہ عليہ اس ليے بيٹھے رہتے تا كہ مردوں كے جانے سے قبل عورتيں اٹھ كر چلى جائيں"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 793 ).
2 - اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اگر ہم يہ دروازہ عورتوں كے ليے چھوڑ ديں"
نافع كہتے ہيں: تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما فوت ہونے تك اس دروازے سے داخل نہيں ہوئے"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 462 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
3 - ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مردوں كى سب سے بہتر اور اچھى صفيں پہلى ہيں، اور سب سے برى آخرى، اور عورتوں كى سب سے بہتر اور اچھى صفيں آخرى اور سب سے برى پہلى صفيں ہيں"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 664 ).
مرد و زن كے اختلاط كى ممانعت ميں شريعت كى يہ سب سے بڑى دليل ہے، اور يہ كہ مرد عورتوں كى صفوں سے جتنا زيادہ دور ہو يہ افضل ہے، اور عورت مردوں كى صف سے جتنى زيادہ دور ہو وہ اس كے ليے افضل ہے.
جب اس طرح كے اقدامات مسجد ميں جو كہ پاكيزہ عبادت كے ليے ہے كيے گئے تو بلا شك مسجد كے علاوہ دوسرى جگہوں پر تو بالاولى ہونے ضرورى ہيں.
4 - ابو اسيد انصارى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے سنا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسجد سے نكلتے ہوئے فرما رہے تھے، جب راستے ميں مرد اور عورتوں كا اختلاط ہوا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں سے فرمايا:
" ايك طرف ہو جاؤ، كيونكہ تمہيں راستے كے وسط ميں چلنے كا حق نہيں، تمہيں راستے كے كناروں ميں چلنا چاہيے"
تو عورت ديوار كے ساتھ اتنا چمٹ كر چلتى تھى كہ ديوار كے ساتھ لگنے كے بنا پر اس كا لباس ديوار كے ساتھ اٹك جاتا تھا.
سنن ابو داود حديث نمبر ( 5272 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
آپ مرد و زن كے اختلاط كے خطرات پر كلام كى تفصيل ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 1200 ) كا جواب ضرور ديكھيں.
اور جب اختلاط حرام ہے، تو پھر كيفے كا مالك اسے باقى ركھنے اور اس سے منع نہ كرنے، اور ان لوگوں كو اللہ تعالى كى معصيت اور گناہ كرنے كے ليے جگہ فراہم كر كے ان كى معاونت كرنے پر گنہگار ہو گا.
لہذا اس پر واجب ہے كہ وہ اللہ تعالى سے ڈرے اور مومنوں كےمابين شر و فساد پھيلانے پر ممد و معاون مت بنے، اور اسے اپنى كمائى پاكيزہ اور اچھى كرنے كى حرص ركھنى چاہيے، كيونكہ: ( ہر وہ جسم جو حرام سے بنا ہو اس كے ليے آگ زيادہ بہتر ہے ).
جيسا كہ فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ہے:
" ہر وہ جسم جو حرام سے پلا ہو اس كے آگ زياد بہتر ہے"
اسے طبرانى اور ابو نعيم نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 4519 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور ترمذى نے كعب بن عجرۃ رضى اللہ تعالى عنہ سے ان الفاظ كے ساتھ روايت كيا ہے كہ:
" بلاشبہ بات يہى ہے كہ كوئى بھى گوشت زيادہ نہيں ہوتا جو حرام پر پلا ہو مگر اس كے ليے آگ زيادہ بہتر ہے"
جامع ترمذى حديث نمبر ( 614 ).
اگر تو آپ اس اختلاط كو روكنے كى استطاعت ركھتے ہيں، تو واجب بھى يہى ہے، يا صرف آپ كيفے كو صرف مردوں كے ليے خاص كرديں، وگرنہ كوئى دوسرا مباح كام تلاش كر ليں، اور جو كوئى بھى كسى چيز كو اللہ تعالى كے ليے ترك كرتا ہے، تو اللہ تعالى اسے اس كے بدلے ميں اس سے بھى بہتر اور اچھى چيز مہيا كرتا ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اور پرہيزگارى اختيار كرے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان بھى نہيں ہوتا.
واللہ اعلم .