الحمد للہ.
رسم يعنى خاكہ بنانے كے دو معنى ہيں:
ايك يہ كہ ذى روح كا خاكہ بنانا، سنت نبويہ ميں اس كى حرمت آئى ہے، اس ليے ذى روح كا خاكہ بنانا جائز نہيں، كيونكہ صحيح حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہر مصور آگ ميں جائيگا "
اور ايك دوسرى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان كچھ اس طرح ہے:
" روز قيامت سب سے زيادہ شديد عذاب مصوروں كو ہو گا جو اللہ تعالى كى مخلوق پيدا كرنے كا مقابلہ كرتے ہيں "
اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان يہ بھى ہے:
" تصاوير والوں كو روز قيامت عذاب ديا جائيگا اور انہيں كہا جائيگا كہ جو تم نے بنايا تھا اس ميں جان ڈالو "
اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود خور اور سود دينے، اور مصور پر لعنت فرمائى ہے، تو يہ تصوير كے حرام ہونے پر دلالت كرتى ہے، اور علماء كرام نے اس كى شرح يہ كى ہے كہ اس سے ذى روح جانوروں اور انسانوں اور پرندوں كى تصوير مراد ہے.
ليكن جس ميں روح نہيں اس كا خاكہ بنانا، يعنى دوسرے معنوں ميں پہاڑ درخت ہوائى جہاز گاڑى وغيرہ كا خاكہ بنانے ميں اہل علم كے ہاں كوئى حرج نہيں.
اور حرام خاكہ ميں سے اسے استثنى كيا جائيگا جس كى ضرورت ہو، مثلا مجرموں كا خاكہ بنانا تا كہ لوگ اسے پہچان سكيں اور اسے پكڑا جا سكے، يا شناختى كارڈ كى تصوير جس كے بغير چارہ نہيں، اور تصوير كے بغير اسے حاصل كرنا ممكن نہيں، اور اسى طرح اس كے علاوہ جس كى ضرورت پڑے.
اس ليے اگر حكمران ديكھے كہ كسى چيز كے خطرناك ہونے كى بنا پر اس كى تصوير بنانے كى ضرورت ہے، تا كہ مسلمان اس كے شر سے محفوظ رہ سكيں اور اسے پہچان سكيں، يا پھر كسى دوسرے اسباب كى بنا پر تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اللہ تعالى نے اس سب كى تفصيل بتا دى ہے جو تم پر حرام كيا ہے، مگر وہ بھى جب تم كو سخت ضرورت پڑ جائے تو حلال ہے الانعام ( 119 ).