سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

نفلي روزہ ركھنےكےبعد روزہ كھول ديا تو كيا قضاء واجب ہے

سوال

ايك شخص نے شوال كےچھ روزے ركھنا چاہے، اور ان ايام ميں سے كسي ايك دن روزہ ركھ لينے كےبعد بغير كسي عذر كےروزہ كھول ديا اور مكمل نہيں كيا تو كيا وہ شوال كےچھ روزے مكمل كرنے كےبعد اس دن كي قضاء كرےگا اور يہ روزے سات ہونگے يا كہ شوال كےصرف چھ روزے ہي شمار ہونگے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جوشخص نفلي روزہ شروع كرلے تو كيا اسے وہ روزہ مكمل كرنا واجب ہے كہ نہيں ؟ اس ميں علماء كرام كےدو قول ہيں :

پہلا قول:

نفلي روزہ مكمل كرنا لازم نہيں، حنابلہ اور شافعيہ كا يہي مذہب ہے انہوں نےمندرجہ ذيل احاديث سے استدلال كيا ہے:

1 - ام المؤمنين عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا بيان كرتي ہيں كہ ايك دن رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم ميرے پاس تشريف لائے اور كہنےلگے: كيا تمہارے پاس كچھ ہے؟ ہم نےجواب نفي ميں ديا تونبي صلي اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے تو پھر ميں روزہ سے ہوں، پھر ايك دن تشريف لائے تو ہم نے كہا اے اللہ تعالي كےرسول صلي اللہ عليہ وسلم ہميں حيسہ ( چوري ) ہديہ ديا گيا ہے ، تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم فرمانےلگے مجھےدكھاؤ ميں نے تو صبح روزہ ركھا تھا، پھر نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے وہ كھا ليا. صحيح مسلم حديث نمبر ( 1154 )

2 - ابوجحيفہ كہتےہيں كہ: تو ابو درداء رضي اللہ تعالي عنہ آئے اور ان كےليے كھانا تيار كيا ( يعني سلمان رضي اللہ تعالي عنہ كےليے ) اور كہنےلگے: كھاؤ ميں توروزہ سے ہوں، سلمان رضي اللہ تعالي عنہ كہنےلگےميں توتب كھاؤں گا جب آپ بھي كھائيں گے، وہ كہتےہيں كہ انہوں نےكھايا ، سلمان رضي اللہ تعالي عنہ انہيں كہنےلگے: بلاشبہ تيرے رب كا تجھ پر حق ہے اور تيرے نفس كا بھي تجھ پر حق ہے، اور تيرے اہل وعيال كا بھي تجھ پر حق ہے لھذا ہر حقدار كو اس كا حق دو، تو وہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےپاس آئے اور يہ سب كچھ ذكر كيا تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا سلمان رضي اللہ تعالي عنہ نے سچ كہا ہے. صحيح بخاري حديث نمبر ( 1968 )

3 - ابوسعيد خدري رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ: ميں نے رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےليے كھانا تيار كيا تو جب كھانا لگايا گيا تو ايك شخص كہنےلگا ميں روزے سے ہوں ، تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: تيرے بھائي نے تجھےدعوت دي ہے اور تيرے ليے تكلف كيا ہے روزہ كھول دو اور اگر چاہو تو اس كي جگہ روزہ ركھ لينا.

سنن دارقطني حديث نمبر ( 24 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالي نے فتح الباري ميں اسے حسن قرار ديا ہے. ديكھيں فتح الباري ( 4 / 210 )

دوسرا قول :

نفلي روزہ مكمل كرنا لازم ہے، اگر كسي نے روزہ توڑ ديا تو اس كےذمہ اس روزہ كي قضاء ہوگي ، احناف كا يہي مسلك ہے ، انہوں نے قضاء كےوجوب پر مندرجہ ذيل احاديث سے استدلال كيا ہے:

1 - عائشہ رضي اللہ تعالي عنہا بيان كرتي ہيں كہ: مجھے اورحفصہ رضي اللہ تعالي عنھا كو كھانا ھديہ كيا گيا تو ہم روزہ سے تھيں لھذا ہم نے روزہ كھول ديا پھر رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم تشريف لائے تو ہم نے انہيں عرض كيا اے اللہ تعالي كےرسول صلي اللہ عليہ وسلم ہميں ھديہ ديا گيا تو ہمارا دل كھانےكوچاہا لھذا ہم نے روزہ كھول ديا، تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم فرمانےلگے: نہيں بلكہ تم دونوں اس كےبدلے ميں كسي اور دن روزہ ركھو.

سنن ابوداود ( 2457 ) جامع ترمذي ( 735 ) اس حديث كي سند ميں زميل نامي راوي ہے اس كےبارہ ميں تقريب التھذيب ميں لكھا ہے كہ يہ مجھول ہے ، اور امام نووي رحمہ اللہ تعالي نے المجموع ( 6 / 396 ) ميں اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالي نے زاد المعاد ( 2 / 84 ) اسے ضعيف قرار ديا ہے اور علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے بھي اسے ضعيف كہا ہے.

اور عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا والي سابقہ حديث جو كہ مسلم ميں ہے بعض نے يہ زيادہ كيا ہے كہ : ( ميں نےتو صبح روزہ ركھا تھا، پھر انہوں نےكھا ليا اور كہا ميں اس كي جگہ روزہ ركھوں گا.

اس كا جواب يہ ہے كہ امام نسائي رحمہ اللہ تعالي نے اس زيادہ كو ضعيف قرار ديا اور كہا ہے كہ يہ خطاء ہے، اور اسي طرح دار قطني اور بيھقي نے بھي اسے ضعيف قرار ديا ہے.

دلائل قوي ہونےكي بنا پر پہلا قول ہي راجح ہے ، اور اس كي تائيد اس سے بھي ہوتي ہے كہ ام ھانئ رضي اللہ تعالي عنہا كہتي ہيں كہ: اےاللہ تعالي كےرسول صلي اللہ عليہ وسلم ميں روزہ سے تھي تو روزہ كھول ديا ہے ؟ تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےانہيں فرمايا: كيا تم كوئي قضاء كررہي تھيں ؟ انہوں نےجواب نفي ميں ديا تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا: اگر نفلي تھا تو پھر تجھےكوئي نقصان نہيں دےگا.

سنن ابوداود حديث نمبر ( 2456 ) علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں :

اگرانسان نے نفلي روزہ ركھا ہوا ہو اور روزہ كھولنے كي ضرورت پيش آجائے تو وہ روزہ كھول لے، اور نبي صلي اللہ عليہہ وسلم سے بھي يہي ثابت ہے كہ وہ ايك دن ام المؤمنين عائشہ رضي اللہ تعالي عنہا كےپاس تشريف لائے اور كہنے لگے: كيا تمہارےپاس كچھ ہے؟ توانہوں نےجواب ديا كہ ہميں حيسہ ھديہ ديا گيا ہے تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا: مجھےدكھاؤ ميں نےتو صبح روزہ ركھا تھا، تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے اسے كھايا. يہ نفلي روزہ ميں تھا نہ كہ فرضي ميں . انتھي . ديكھيں مجموع الفتاوي ( 20 )

تواس بنا پر جس دن آپ نےروزہ كھول ديا تھا اس كي قضاء لازم نہيں ہوتي ، كيونكہ نفلي روزہ ركھنےوالا خود اپنے آپ كا امير ہے ، اور اس نے شوال كے چھ روزے مكمل كرليےہيں .

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب