الحمد للہ.
ہمارے محترم سوال كرنے والے ہم آپ كے اس سوال كرنے پر مشكور ہيں كيونكہ ختنہ كا مسئلہ ان مسائل ميں شامل ہوتا ہے جو بالفعل كئى ايك حالات ميں اسلام قبول كرنے والوں كى راہ ميں ايك گھاٹى اور ركاوٹ سى بنى ہوتى ہے، حالانكہ يہ مسئلہ اس سے تو بہت ہى آسان ہے جو لوگ خيال كرتے ہيں.
ختنہ دين اسلام كے شعائر اور علامات ميں شامل ہوتا ہے، اور يہ ايك فطرتى چيز ہے، اور پھر ابراہيم عليہ السلام كى ملت سے بھى ہے، اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
پھر ہم نے آپ كى طرف وحى كى كہ تم ملت ابراہيم كى يكسو ہو كر اتباع كرو .
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ابراہيم عليہ السلام نے اسى برس كى عمر ميں ختنہ كروايا "
صحيح بخارى ( 6 / 388 ) طبعہ السلفيۃ
چنانچہ اگر مرد استطاعت اور قدرت ركھتا ہو تو اس كے ليے ختنہ كروانا واجب ہے، ليكن اگر وہ استطاعت اور طاقت نہيں ركھتا، مثلا اگر ختنہ كرائے تو اسے اپنى جان تلف ہونے كا خدشہ ہو، يا پھر كوئى ماہر ڈاكٹر كہے كہ جتنہ كرنے سے اس كا خون نہيں ركے گا اور ہو سكتا ہے اس كى جان كو ہى خطرہ لاحق ہو تو اس وقت اس سے ختنہ ساقط ہو جائيگا اور وہ اس كے ترك كرنے پر گنہگار نہيں ہوگا.
اور كسى بھى حالت ميں ختنہ كو دين اسلام قبول كرنے كے درميان ركاوٹ بنانا جائز نہيں، بلكہ اسلام كا صحيح ہونا ختنہ پر ہى موقوف نہيں كيونكہ ختنہ كرائے بغير بھى اسلام قبول كرنا صحيح ہے.
رہا عورتوں كے ختنہ كرنے كا مسئلہ تو يہ سوال نمبر ( 427 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے اس كا مطالعہ كريں.
اللہ تعالى سے ميرى دعا ہے كہ آپ كو ہر قسم كى بھلائى اور خير نصيب فرمائے، اور آپ كو ہر قسم كے شر سے محفوظ ركھے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .