جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

خريد كا كہنے والے كو قسطوں ميں اشياء كى فروخت

40000

تاریخ اشاعت : 20-08-2012

مشاہدات : 4876

سوال

مجھے گھريلو اشياء قسطوں ميں فروخت كرنے كے كاروبار ميں حصہ دار بننے كى پيشكش كى گئى جس كى صورت درج ذيل ہے:
ہم ان اشياء كے مالك تو نہيں، بلكہ ايك شخص ہمارے دفتر آكر كہتا ہے كہ مجھے فلان چيز دركار ہے، مثلا مجھے چار ائر كنڈيشن، تو ہم اس كے ليے يہ سامان خريدتے اور اس كى قيمت اس دوكاندار كو ادا كرتے ہيں جس سے ہمارا تجارتى لين دين ہے، اور يہ اشياء گاہك كے ساتھ قيمت پر متفق ہو جانے كے اس سامان كو قسطوں فروخت كرديتے ہيں( مثلا اس كى نقد قيمت 1200ريال ہے تو اسے قسطوں ميں 2000ريال پر فروخت كيا جاتا ہے.
بعض گاہك تو اسے اپنے استعمال كے ليے خريدتے ہيں اور بعض لوگ اسے اس ليے خريدتے ہيں كہ جس دوكان نے ہم نے خريدا ہے اسے وہ اسى كے پاس فروخت كرديں، كيونكہ خريدار اس دوكان پر ريٹ اچھا مل جاتا ہے، اور اب ہم بھى اسى طريقہ پر عمل كرنا چاہتے ہيں تا كہ ہمارے پاس راس المال جمع ہو جائے جو گھريلو استعمال كى اشياء كے ليے كافى ہو اور ہم خود يہ اشياء نقدا يا قسطوں ميں فروخت كرسكيں.
تو كيا يہ طريقہ صحيح ہے، ہمارى آپ سے گزارش ہے كہ اس كى وضاحت فرمائيں كيونكہ ہم اور بہت سے دوسرے مسلمان اس طريقہ پر عمل كرتے ہوئے اس كى فروخت كرتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ:

اگر تو معاملہ اسى طرح ہے جيسا آپ ذكر كر رہے ہيں كہ: آپ گاہك كو مطلوبہ چيز حقيقتا خريد كر اپنے قبضہ ميں كرتے اور پھر اسے گاہك كو قسطوں ميں فروخت كرتے ہيں تو ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، چاہے موجودہ قيمت سے قسطوں كى فروخت ميں قيمت زيادہ بھى ہو.

اور اس ميں يہ چيز نقصان دہ نہيں كہ آپ سے خريدنےوالا شخص پہلى دوكان جس سے آپ نے خريدارى كى ہے كو يہ سامان فروخت كردے، كيونكہ اس دوكان اور خريدار كے مابين كوئى تعلق نہيں ہے.

مستقل فتوى كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

ميرے اور ايك شخص كے درميان اتفاق ہوا ہے كہ ميں اسے گاڑى خريد كر دوں، ميں نے اسے كہا كہ شوروم ميں گاڑى كى قيمت ( 50000 ) پچاس ہزار ريال كى ہے جب ميں تيرے ليے لاؤں تو تم مجھے ( 60000 ) ساٹھ ہزار ريال دو گے، تو كيا ايسا كرنا صحيح ہے؟

جب گاڑى يا كوئى اور چيز خريد ليں اور اسے اپنى ملكيت اور قبضہ ميں كرليں تو آپ اسے كسى دوسرے شخص كو فروخت كرسكتے ہيں، لہذا آپ اسے موجود قيمت يا ادھار جو نقد كى قيمت سے زيادہ ہو دونوں طرح فروخت كرسكتے ہيں ايسا كرنا جائز ہے، چاہے ادھار والى قيمت قسطوں ميں ادا كى جائے يا يكمشت، اس ليے كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور اللہ تعالى نے بيع حلال كى ہے البقرۃ ( 275 )

اور ايك مقام پر اسطرح فرمايا:

اے ايمان والو جب تم ايك وقت تك كے ليے ايك دوسرے سے قرض كا لين دين كرو تو اسے لكھ ليا كروالبقرۃ ( 282 ).

اور اس ميں ادھار كى بيع كى قيمت بھى شامل ہے.

ليكن ايسے شخص كو جس نے كوئى چيز خريدنے كا كہا ہو اسے اس چيز كى خريدارى كركے اسے اپنے قبضہ ميں كرلينے سے قبل فروخت كرنا جائز نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ:

زيد بن ثابت رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ نے كسى چيز كو وہيں فروخت كرنے سے منع فرمايا جہاں وہ خريدى گئى ہو بلكہ اسے اپنے قبضہ ميں كرنے اور وہاں سے منتقل كرنے كے بعد فروخت كرنا چاہيے"سنن ابو داود حديث نمبر ( 3499 ) شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے حسن لغيرہ قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے غلہ خريدا تو وہ اسے اس وقت تك فروخت نہ كر لے جب تك وہ اسے ماپ تول كر اپنے پورا اپنے قبضہ ميں نہ كرلے" صحيح مسلم حديث نمبر ( 1596 ).

اور ايك حديث ميں فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ہے:

" جو تيرے پاس نہيں ہے اسے فروخت نہ كر" مسند احمد حديث نمبر ( 3503 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح الجامع ( 7206 ) ميں صحيح كہا ہے.

اور ابن عمر رضي اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں كہ:

" ہم قافلے والوں سے بغير ماپ اورتول كے غلہ خريدا كرتے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہمارى جانب كسى شخص كو بھيجتے جو ہميں منع كرتا كہ اسے اس وقت تك فروخت نہ كرنا جب تك تم اسے اپنے پڑاؤ ميں نہ لے جاؤ" صحيح بخارى و مسلم ( 1527 ).

ليكن بيع العينۃحرام ہے، اس كى شكل يہ ہے كہ: سامان كو ادھار خريد كر پھر اسے فروخت كرنے والے شخص كے پاس ہى اس قيمت سے كم ميں فروخت كرديا جائے، جو كہ اس سوال ميں بيان كى گئى صورت ميں نہيں ہے.

آپ مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 36408 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب