سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

لوگوں سے مال چھينے ہوئے مال كى مقدار كا علم نہيں اور نہ ہى واپس كرنے كى استطاعت ہے اسے كيا كرنا چاہيے ؟

40019

تاریخ اشاعت : 14-08-2006

مشاہدات : 6552

سوال

ميرى زندگى كا ايك دور گناہ اور معصيت ميں بسر ہوا ہے، ميرى مشكل يہ ہے كہ ميں جہاں تھا وہاں سے رقم اڑايا كرتا تھا، اللہ تعالى كى جانب سے مجھے ہدايت نصيب ہونے كے بعد مجھے اپنے گناہ كا احساس ہوا، اور ميں نے واقعتا لوگوں كى رقم لوٹانى شروع كردى، ليكن مشكل يہ پيش آئى كہ مجھے اس رقم كى مقدار كا علم نہيں، ميں نے كوشش كى كہ اس جگہ كا مالك مجھے معاف كردے اور اس كا سبب بھى ذكر نہ ہو ليكن ميں ايسا نہ كر سكا، ميرے پاس اور رقم نہيں جو ميں ادا كر سكوں، تو اگر ميں اپنے ذمہ مكمل رقم ادا نہيں كرتا تو كيا اللہ تعالى ميرى توبہ قبول فرما لے گا ؟
اور اگر ميرے ليے كسى چيز كا كرنا ممكن ہے تو وہ كيا ہو سكتى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ پر واجب ہے كہ اللہ تعالى كے ہاں توبہ واستغفار كريں، اور جتنا بھى مال اڑايا ہے وہ واپس كريں، اس كے بغير آپ كو توبہ مكمل نہيں ہو سكتى، اگرچہ اس رقم كى مقدار كا علم نہ بھى ہو، تو اس كے ليے ظن غالب ہى كافى ہے اور اس كا اندازہ لگانے ميں احتياط سے كام ليں، مثلا اگر80 اور 100 كے مابين رقم ميں تردد ہو تو ايك سو ادا كرديں، تا كہ آپ اپنے رب سے مليں تو اس خيانت اور ظلم و زيادتى سے پاك ہوں.

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس كسى پر بھى اپنے كسى بھائى كى عزت وغيرہ ميں سے كوئى حق ہو وہ آج ہى اس سے چھٹكارا پالے قبل اس كے اس كے پاس نہ تو دينار ہو گا اور نہ كوئى درھم، اگر اس كے كوئى نيك اعمال ہونگے تو اس سے وہ اس كے ظلم كے مطابق لے ليے جائيں گے، اور اگر نيكياں نہيں ہونگى تو مظلوم شخص كے گناہ لے كر اس پر ڈال ديے جائيں گے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2449 ).

جس كى ادائيگى سے آپ اس وقت عاجز ہوں وہ آپ كے ذمہ قرض ہو گا، اس كى ادائيگى كيے بغير برى الذمہ نہيں ہو سكتے، اور اس وقت آپ پر واجب ہے كہ آپ اسے اپنى وصيت ميں ذكر كريں، ہو سكتا ہے اس كى ادائيگى سے قبل آپ كو موت آجائے؛ كيونكہ بخارى اور مسلم شريف كى حديث ہے:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" كسى بھى مسلمان شخص كو يہ حق نہيں كہ وہ تين راتيں بسر كرے اور اس كے پاس وصيت والى چيز ہو، مگر اس كى وصيت اس كے پاس لكھى ہونى چاہيے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2738 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1627 ).

عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى كہتے ہيں: جب سے ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ فرمان سنا ہے اس وقت سے ايك رات بھى نہيں بيتى مگر ميرى وصيت ميرے پاس ہے.

اللہ تعالى سے ہم توفيق اور تعاون كى دعا كرتے ہيں.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب