سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

جس عورت پرمجرمانہ حملہ ہوتوکیا اس پراپنادفاع کرنااورعزت بچانی واجب ہے

4017

تاریخ اشاعت : 29-03-2004

مشاہدات : 8581

سوال

جب کوئي کسی عورت کی عزت لوٹنا چاہے توکیا اس عورت پراپنادفاع کرنا واجب ہے اورکیا اس کے لیےعزت بچانے کی خاطراسلحہ استعمال کرناجائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

مکرھہ یعنی جس عورت سے جبرازنا کیاجائے اس پراپنا دفاع کرنا واجب ہے ، اوراسے مجرمانہ حملہ کرنے والے کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرنا چاہیے چاہے اسے حملہ آور کوقتل ہی کيوں نہ کرنا پڑے ، اس کا اپنے نفس سے دفاع کرنا واجب ہے ، اوراس کے ساتھ جبرازنا کرنے والے کوقتل کرنے پراس کےذمہ کوئي گناہ نہیں ہوگا ۔

کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جواپنے مال کوبچاتے ہوئے قتل کردیا گيا وہ شہید ہے ، اورجواپنے خون کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہوا وہ بھی شہید ہے ، اورجوکوئي اپنی دین کوبچاتے ہوئے قتل ہوا وہ شہید ہے ، اورجوکوئي اپنے گھروالوں کوبچاتے ہوئے قتل ہوا وہ بھی شہید ہے ) اسے ابن حبان نے روایت کیا ہے ۔

اس حدیث کی شرح میں ہے : قولہ : ( جوکوئي اپنےگھروالوں کوبچاتے ہوئے قتل ہوا وہ شہید ہے ) یعنی اپنی بیوی یا اپنی عزيزہ کی عزت بچاتے ہوئے قتل ہوا وہ شہید ہے ۔

اورجب مرد کےلیے اپنی بیوی کوزنا سے بچانے کے لیے اس سے زنا کرنے والے کے ساتھ لڑائي کرنی جائز ہے چاہے وہ اسے قتل ہی کردے ، یعنی دفاع میں قتل کردے توبالاولی عورت کے لیے بھی جائز ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے اورعزت لوٹنے کی کوشش کرنے والے سے اپنا دفاع کرے چاہے وہ قتل ہی کیوں نہ ہوجائے ، اس لیے کہ اگروہ اپنا دفاع کرتے ہوئے قتل کردی جائے توشہید ہوگی ، جس طرح اس کی عزت کا دفاع کرتے ہوئے خاوند قتل کردیا جائے توشہید ہوگا ۔

اورشھادت کا درجہ بہت ہی عالی اوربلند مرتبہ ہے جواللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری کے راستے فوت ہونے سے حاصل ہوتا ہے اوراس راستے میں جسے اللہ تعالی پسند کرتا ہے یہ سب کچھ اس پردلالت کرتا ہے کہ اس طرح کا دفاع اللہ تعالی پسند فرماتا ہے : یعنی خاوند کا اپنی بیوی کی عزت کی حفاظت کرنا اورعورت کا اپنی عزت کا دفاع کرنا ۔

لیکن جب وہ اپنے آپ کا دفاع نہ کرسکے اوروہ فاسق اورفاجر اس پرغالب آجائے اوراس کے ساتھ جبرا زنا کرے تواس عورت پرنہ توحد ہے اورنہ ہی اسے تعزیر لگائي جائے گی ، بلکہ حد توخسیس اورظالم وگنہگار پرہوگی ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی تعالی نے اپنی کتاب المغنی میں کہا ہے :

( امام احمد رحمہ اللہ تعالی نےاس عورت جس نے اپنی عزت بچانے کی خاطر مجرمانہ حملہ کرنے والے شخص کوقتل کردیا کے بارہ میں کہا : جب وہ عورت یہ جان لے کہ مجرم صرف اس کی عزت کے درپے ہے تواس نے اپنی عزت بچانے کی خاطر اسے قتل کردیا تواس عورت پرکچھ بھی نہيں ۔

امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے ایک حدیث ذکر کی ہے جسے زھری قاسم بن محمد عن عبید بن عمیر سے بیان کرتے ہيں کہ ایک شخص ھذیل قبیلہ کے کچھ لوگوں کا مہمان بنا اوراس نے ایک عورت کی عزت لوٹنے کی کوشش کی توعورت نے اسے پتھرمارا تووہ قتل ہوگيا ، لھذا عمررضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے :

اللہ کی قسم کبھی بھی اس کی دیت نہيں دی جائے گی ( یعنی اس کی دیت ادا نہيں کی جائے گی ) اوراس لیے بھی کہ جب اپنےمال کا جسے خرچ کرنا جائز اورمباح ہے کا دفاع کرنا جائز ہے توپھرعورت کا اپنے نفس وعزت کا دفاع کرنا اوراسے فحاشی وزنا جوکسی بھی حال میں جائز نہيں سے محفوظ کرنا مرد کا اپنے مال کی حفاظت ودفاع کرنے سے بالاولی جائز ہوگا ۔

اورجب یہ ثابت ہوگيا توعورت پربھی واجب ہے کہ وہ حتی الامکان اپنا دفاع کرے ، کیونکہ اس پراس مجرم کا حاوی ہوناحرام ہے ، اوراوراپنا دفاع نہ کرنا اسے اپنے اوپر حاوی کرنا ہے ) دیکھیں : المغنی لابن قدامۃ ( 8 / 331 ) ۔

واللہ اعلم : دیکھیں : المفصل فی احکام المراۃ ( 5 / 42 - 43 ) ۔

اورابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب " الطرق الحکمیۃ ( 18 ) میں کہتے ہیں : الفصل : اوراس میں سے یہ بھی ہے :

عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک عورت لائي گئي جس نے زنا کیا تھا ، عمررضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے پوچھا تواس نے زنا کی اقرار کرلیا اورعمررضي اللہ تعالی نے اسےرجم کرنے کا حکم دیا ، توعلی رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے ہوسکتا ہے اس عورت کا کوئي ‏عذر ہو ، پھر اس عورت کوکہنے لگے : تونے زنا کیوں کیا ؟

وہ کہنے لگی : میرا چاپائیوں میں ایک شراکت دار ہے ، اوراس کے اونٹوں میں پانی اوردودھ بھی ہے لیکن میرے اونٹوں میں پانی اوردودھ نہيں تھا ، مجھے پیاس لگی تومیں نے اس سے پانی مانگا اوراس نے پانی پلانے سے انکار کردیا اورشرط رکھی کہ میں اسے اپنا آپ دوں تووہ مجھے پانی دے گا لیکن میں نے اس کے سامنے تین بار انکار کیا ۔

اورجب مجھے پیاس زيادہ لگي اورمجھےگمان ہوا کہ میری جان نکلنے والی ہے تومیں نے اس کا مطالبہ پورا کردیا تواس نےمجھے پانی پلایا ، توعلی رضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے : اللہ اکبر :

توجومجبور اوربے قرار ہوجائے اوروہ حد سے بڑھنے والا اورزيادتی کرنے والانہ ہو تواس پرکوئي گناہ نہيں ، یقینا اللہ تعالی بخشنے والا رحم کرنے والا ہے

اورسنن بیھقی میں ہے کہ:

ابوعبدالرحمن السلمی بیان کرتے ہيں کہ عمررضي اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک عورت آئي جسے پیاس نے مجبور کردیا اوروہ ایک چرواہے کے پاس سے گزری تواس سے پانی طلب کیا ، لیکن اس نے پانی دینے سے انکار کردیا اورکہا کہ اگرتم اپنا آپ میرے سپرد کردو تومیں پانی دونگا ۔

عمررضي اللہ تعالی عنہ نے اس عورت کورجم کرنے کے بارہ میں لوگوں سے مشورہ کیا توعلی رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے یہ تومضطر اورمجبور ہے میرے خیال میں اسے کچھ نہيں کہنا چاہیے توعمررضي اللہ تعالی عنہ نے اسے حد نہيں لگائي ، اورعمل بھی اسی پر ہے ۔

کہ اگر کوئي عورت کھانے یا پانی کے لیے مجبور ہوجاتی ہے اورآدمی اسے اس شرط پریہ دے کہ وہ اپنا آپ اس کے سپرد کردے اوراس عورت کوبھوک وپیاس کی بنا پرھلاک ہونے کا خدشہ ہواوراس نے اپنا آپ اس شخص کے سپرد کردیا تواس عورت پرکوئي حد نہيں ہوگي ۔

اوراگریہ کہا جائے کہ : کیا اس کے لیے اس حالت میں اپنے آپ کواس کے سپرد کردینا جائز ہے یا اس پرواجب ہے کہ وہ صبروتحمل سے کام لے چاہے اسی حالت میں اسے موت بھی آجائے اسے اپنے آپ کواس شخص کے سپرد نہیں کرنا چاہیے ؟

جواب میں کہا جائے گا : اس کا حکم زنا پرمکرہہ یعنی مجبور کی گئي عورت کا ہی ہوگا جسے یہ کہا گيا ہو کہ : یا تواپنے آپ کومیرے سپرد کردو یا پھرمیں تجھے قتل کردونگا ۔

اورمکرہہ یعنی مجبور عورت پرحد نہيں ، اس کے لیے قتل کے بدلہ میں ایسا کرنا جائز ہے ، اوراگر وہ قتل ہونے پر صبر کرتی ہے تویہ اس کے لیے افضل اوربہتر ہے ( لیکن ایسا کرنا اس پرواجب اورضروری نہيں ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد