الحمد للہ.
جادو سے متاثر مریض کی مختلف حالتیں ہیں:
پہلی حالت:
جادو کی وجہ سے اس کی عقل متاثر ہو چکی ہو، جس کی وجہ سے اسے اپنے آپ پر ہی کنٹرول نہ ہو، غیر ارادی طور پر زبان چلتی جائے، اور غیر ارادی حرکتیں کرے، لا شعوری میں واجبات پر عمل نہ کرے؛ تو ایسا مریض شریعت کا مکلف نہیں ہے، اور نماز ، روزہ چھوڑنے کی وجہ سے اس پر کوئی گناہ بھی نہیں ہے؛ کیونکہ یہ پاگل کے حکم میں ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تین لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے: سوئے ہوئے شخص سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے۔ بچے سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے، اور پاگل سے یہاں تک وہ سمجھنے لگے۔) اس حدیث کو ابو داود : (4403)نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ: پاگل اور غیر ممیز چھوٹے بچے پر نماز، روزہ، اور حج جیسی بدنی عبادت نہیں ہے۔" ختم شد
"منهاج السنة" (6/49)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسئلہ: کیا جادو زدہ بھی مجنون اور پاگل کی طرح ہے؟ جی ہاں -ہم اللہ تعالی سے عافیت طلب کرتے ہیں-جادو زدہ مریض بھی مجنون کی جنس میں شامل ہے، اس لیے اگر مسحور شخص طلاق دے دے تو طلاق واقع نہیں ہو گی، اور اگر ایلا کر لے تو اس کا ایلا بھی درست نہیں ہو گا، اور اگر ظہار کر لے تو اس کا ظہار بھی صحیح نہیں ہو گا؛ کیونکہ مسحور شخص کی عقل مکمل طور پر اس کے ہاتھ میں نہیں ہوتی۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (13/221)
دوسری حالت:
مسحور شخص کی عقل تو ٹھیک ہے، لیکن جادو کی وجہ سے وہ روزہ نہیں رکھ سکتا، تو ایسے میں یہ شخص کوشش کرے اور فرائض بجا لائے، کثرت کے ساتھ ذکر اور شرعی دم پڑھے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (1/283) میں ہے:
"انسانوں پر جنوں کا سایہ امر واقع ہے، اگر ایسے شخص کو جن کسی حرام کام پر اکسائیں تو اس شخص پر واجب ہے کہ شریعتِ الہیہ پر کار بند رہے اور جن کے پیچھے لگ کر اللہ تعالی کی نافرمانی مت کرے، اور اگر جن کی بات نہ ماننے پر جن اسے تکلیف پہنچائے تو اس کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرے، اپنے آپ کو قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعے تحفظ فراہم کرے، ذاتی تحفظ کے شرعی ذرائع اختیار کرے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ اذکار پڑھے، مثلاً: سورت الفاتحہ پڑھے، سورت اخلاص پڑھے، سورت الفلق اور سورت الناس پڑھے اور اپنے دونوں ہاتھوں پر تھتکار کر دونوں ہاتھ اپنے چہرے اور جہاں تک ہاتھ پہنچ سکتے ہیں اپنے جسم پر پھیرے، پھر دوبارہ یہی سورتیں تین بار پڑھے اور اپنے دونوں ہاتھوں پر تھتکار کر دونوں ہاتھ اپنے چہرے اور جہاں تک ہاتھ پہنچ سکتے ہیں اپنے جسم پر پھیرے ، اس کے بعد انہیں تیسری بار پڑھے اور اپنے دونوں ہاتھوں پر تھتکار کر دونوں ہاتھ اپنے چہرے اور جہاں تک ہاتھ پہنچ سکتے ہیں اپنے جسم پر پھیرے ۔ اس کے علاوہ بھی قرآنی آیات اور سورتوں سمیت نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ اذکار پڑھ کر اپنے آپ کو دم کرے، حصولِ شفا کے لیے اللہ تعالی سے گڑگڑا کر دعائیں کرے، اور اللہ تعالی سے جناتی اور انسانی شیطانوں سے حفاظت مانگے۔
نیز آپ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب: " الكلم الطيب"، ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب: " الوابل الصيب " اور امام نووی رحمہ اللہ کی کتاب: "الأذكار" کا مطالعہ کریں، ان میں بہت سے دم بیان کیے گئے ہیں۔
عبد اللہ بن قعود عبد اللہ بن غدیان عبد الرزاق عفیفی عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز" ختم شد
اگر سوال میں مذکور خاتون کی حالت ایسی ہی ہے، اور جادو کا اس پر بہت زیادہ اثر ہے، عورت عقل و صحت اور سمجھ داری کے باوجود بھی ذاتی کوتاہی کے بغیر روزہ نہیں رکھ سکتی ، تو پھر اس عورت پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہو گا، تاہم شفا یاب ہونے پر اسے قضا دینا ہو گی؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ جادو لا علاج نہیں ہوتا، جادو سے بھی شفا مل جاتی ہے، اور کوئی بھی ایسا مریض جس کے شفا یاب ہونے کی امید ہو تو اس پر صرف قضا ہوتی ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (183) أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم متقی بن جاؤ [183] چند دن ہیں گنتی کے، جو تم میں سے مریض ہو یا سفر پر ہو تو دیگر ایام میں گنتی پورے کرے۔ [البقرۃ: 183 - 184]
یہاں پر جادو کا اثر اس کے جسم پر ہے جس کی وجہ سے وہ روزے نہیں رکھ پا رہی ، اس بنا پر:
اگر اس کے شفا یاب ہونے کی امید ہو تو اس پر قضا لازم ہے، اور اگر اس کے جسم کو اتنا نقصان پہنچ چکا ہو کہ شفا یاب ہونے کی امید نہ ہو تو اور اتنی کمزوری کی وجہ سے روزہ رکھنا بھی مشقت کا باعث ہو تو پھر ایسی حالت میں وہ کھانا کھلائے گی اس پر قضا نہیں ہو گی۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (49944 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
تیسری حالت:
اور اگر وقفے وقفے سے اسے دورے پڑتے ہیں کہ کچھ وقت دماغی توازن ٹھیک ہوتا ہے ، پھر خراب ہو جاتا ہے، پھر ٹھیک ہوتا ہے اور پھر خراب ہو جاتا ہے تو جس وقت دماغ ٹھیک ہو تو اس وقت اس پر شریعت کے احکامات پر عمل کرنا لازم ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ایسے شخص کے روزے کا کیا حکم ہے جو تھوڑی دیر کے لیے ٹھیک ہوتا ہے پھر دوبارہ پاگلوں والی حرکتیں کرنا شروع کر دیتا ہے، ایک دن ٹھیک ہے تو دوسرے دن پھر اس کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے
تو انہوں نے جواب دیا:
شرعی حکم علت کے ساتھ رہتا ہے۔ چنانچہ جن اوقات میں یہ مریض صحیح ہو، عقل صحیح کام کرے تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہے، اور جس وقت میں پاگل پن ہو اور پاگلوں والی حرکتیں کرے تو اس کیفیت میں اس پر روزہ نہیں ہے۔
چنانچہ اگر فرض کر لیا جائے کہ ایسا شخص ایک دن پاگل ہوتا ہے اور دوسرے دن ٹھیک ہوتا ہے ، اس کا وقت ایسے ہی گزر رہا ہے تو پھر جس دن میں اس کی طبیعت ٹھیک ہو اس دن میں وہ روزہ رکھے گا، اور جس دن ٹھیک نہ ہو اس دن اس پر روزہ لازم نہیں ہے۔" ختم شد
"فتاوی ابن عثیمین" (19/88)
واللہ اعلم