سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

مرتد شخص توبہ کر لے تو کیا مرتد ہونے سے پہلے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دے گا؟

406531

تاریخ اشاعت : 18-04-2023

مشاہدات : 1449

سوال

ایک شخص اسلام سے مرتد ہو گیا اور پھر دوبارہ مسلمان ہو گیا، مرتد ہونے سے پہلے اس کے ذمے کچھ روزوں کی قضا تھی، تو کیا اب بھی اس پر سابقہ روزوں کی قضا ہے؟ یا اسلام قبول کرنے کی وجہ سے سابقہ سب کچھ ختم ہو جائے گا؟ اور کیا ایسے دنوں کے روزوں کے متعلق بھی یہی حکم ہو گا جن کے بارے میں شک ہے کہ اس نے ان دنوں میں روزہ توڑ دینے والے کام کیے تھے یا نہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اس بارے میں اہل علم کے دو اقوال ہیں:

مالکی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ:
مرتد جس وقت مسلمان ہو جائے تو اس پر مرتد ہونے سے پہلے چھوڑے ہوئے روزوں اور نمازوں کی قضا نہیں ہے، اس حوالے سے اس کا حکم اصلی کافر جیسا ہی ہے۔

تاہم انہوں نے یہاں یہ شرط بھی لگائی ہے کہ وہ شخص قضا کو کالعدم کرنے کے لیے مرتد نہ ہوا ہو، چنانچہ اگر کوئی قضا کو ختم کرنے کے لیے مرتد ہو تو اس سے قضا ساقط نہ ہو گی۔ یہ اس شخص کے لیے سزا کے طور پر ہے کہ وہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہ ہو۔

جیسے کہ علامہ خرشی ، خلیل رحمہ اللہ کے قول { وأسقطت صلاة وصياما وزكاة وحجا تقدم} کی شرح میں لکھتے ہیں:
"یعنی اگر کوئی مسلمان مکلف مرتد ہونے سے پہلے نماز، روزہ اور زکاۃ کے متعلق کوتاہی کا شکار ہو، پھر توبہ کر کے دوبارہ اسلام قبول کر لے، تو اسے مذکورہ عبادات کی قضا کا نہیں کہا جائے گا، یہ فوت شدہ عبادات اس سے ساقط ہو جائیں گی؛ کیونکہ اسلام قبول کرنے سے سابقہ تمام گناہ مٹ جاتے ہیں، تو گویا کہ یہ شخص ابھی پہلی بار مسلمان ہونے والے اصلی کافر کی مانند ہے۔ اسی طرح مرتد ہونے سے پہلے جو کچھ بھی اس نے عمل حج وغیرہ کیے تھے وہ بھی ختم ہو گئے، اب اس پر نئے سرے سے حج کرنا لازم ہے ۔۔۔ یہاں یہ قید لگانا مناسب ہے کہ یہ شخص ان عبادات کو ساقط کرنے کے لیے مرتد نہ ہوا ہو، لہذا اگر ان عبادات کو ساقط کرنے کے لیے مرتد ہوا تو یہ عبادات اس سے ساقط نہیں ہوں گی۔ تا کہ یہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو۔" ختم شد
"شرح الخرشي على خليل" (8/ 68)

جبکہ جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ مرتد ہونے سے پہلے جو عبادات ترک کی ہیں ان کی قضا دینا ہو گی۔

 جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (22 /201) میں ہے کہ:
"اگر توبہ تائب ہونے والے مرتد پر مرتد ہونے سے پہلے کا روزہ یا زکاۃ ہو تو کیا اُسے ان کی قضا بھی دینا ہو گی؟
حنفی، شافعی اور حنبلی جمہور فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ اس پر قضا واجب ہو گی؛ کیونکہ عبادت نہ کرنا نافرمانی ہے، اور نافرمانی مرتد ہونے کے بعد بھی باقی رہتی ہے۔" ختم شد

دوم:
مرتد شخص جب توبہ تائب ہو جائے تو مرتد ہونے کے دوران جو نمازیں اور روزے اس نے چھوڑے تھے ان کی قضا نہیں ہو گی؛ کیونکہ توبہ سابقہ تمام گناہوں کو گرا دیتی ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مشہور موقف کے مطابق مرتد شخص دوران ارتداد چھوڑی ہوئی نمازیں، روزے اور زکاۃ کی قضا نہیں دے گا، جبکہ مشہور حنبلی موقف کے مطابق مرتد ہونے سے پہلے ترک کی ہوئی عبادات کی قضا دے گا۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (22/10)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
اگر مرتد توبہ تائب ہو کر مسلمان ہو جائے تو کیا اس پر نماز اور روزوں کی قضا ہو گی؟

تو انہوں نے جواب دیا:
"اس پر قضا نہیں ہے، توبہ کرنے والے کی اللہ تعالی توبہ قبول فرماتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص نواقض اسلام پر عمل کرنے کی وجہ سے مرتد ہو گیا اور پھر اللہ تعالی نے اسے ہدایت دی اور اس نے توبہ کر لی، تو اس پر کوئی قضا نہیں ہو گی۔

اہل علم کے مختلف اقوال میں سے یہی صحیح ترین موقف ہے؛ کیونکہ اسلام سابقہ تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے، اور توبہ بھی سابقہ گناہوں کو گرا دیتی ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ مَا قَدْ سَلَفَ ترجمہ: کفر کرنے والوں سے کہہ دیجیے، اگر وہ کفر سے رک جائیں تو ان کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ [الانفال: 38]

ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (توبہ سابقہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے، اور اسلام سابقہ گناہوں کو گرا دیتا ہے۔)" ختم شد
ماخوذ از: "مجموع فتاوى ابن باز" (29/ 196)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب