الحمد للہ.
" اگر وہ ان ميقات سے نہ گزرے تو وہ اپنے قريب ترين ميقات كے برابر كو ديكھے ( اور وہاں سے احرام باندھے ) جب وہ يلملم اور قرن منازل كے درميانى راستے سے گزرے تو وہ ديكھے كہ دونوں ميں سے زيادہ قريب كونسا ہے اور جب وہ قريبى ميقات كے برابر سے گزرے تو اس كے برابر سے احرام باندھ لے، اس كى دليل عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كى مندرجہ ذيل حديث ہے:
اہل عراق عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس آئے اور كہنے لگے: اے امير المؤمنين نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اہل نجد كے ليے قرن كو ميقات مقرر كيا ہے، جو كہ ہمارے راستے سے ہٹ كر ہے ـ يعنى وہ ہمارے راستے سے دور اور ہٹ كر ہے ـ تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:
تم اپنے راستے ميں اس كے برابر كو ديكھو.
تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے انہيں قرن منازل كا برابر ديكھ كر احرام باندھنے كا حكم ديا، صحيح بخارى ميں اسى طرح بيان ہوا ہے.
اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے حكم ميں يہ عظيم فائدہ ہے كہ جو لوگ ہوائى جہاز كے راستے سے آئيں اور وہ حج يا عمرہ كى نيت ركھتے ہوں تو وہ ان ميقاتوں سے يا ان كے اوپر يا دائيں بائيں سے گزريں تو ان ميقات كے برابر ہونے پر انہيں احرام باندھنا واجب ہے، اور ان كے ليے حلال نہيں كہ وہ احرام كو جدہ اترنے تك مؤخر كريں، جيسا كہ بہت سے لوگ كرتے ہيں، كيونكہ جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مقرر كيا ہے يہ اس كے خلاف ہے.
اور اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى اللہ تعالى كى حدود كو پھلانگے اس نے اپنے آپ پر ظلم كيا الطلاق ( 1 ).
اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى ہے:
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كى حدود كو پھلانگے يہى لوگ ظالم ہيں البقرۃ ( 229 ).
لہذا انسان كو چاہيے كہ جب وہ فضائى راستے سے آئے اور وہ حج يا عمرہ كرنا چاہتا ہو تو ہوائى جہاز ميں احرام باندھنے كے ليے تيار رہے، اور جب وہ سب سے پہلے ميقات كے برابر سے گزرے تو اس پر احرام باندھنا واجب ہے، يعنى وہ حج يا عمرہ كى نيت كر لے، اور وہ اسے جدہ ائرپورٹ اترنے تك مؤخر مت كرے" انتہى .