جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

کیا میت کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ: فلاں اللہ کے ذمے؟

409684

تاریخ اشاعت : 12-03-2023

مشاہدات : 920

سوال

میت کے لیے یہ کہنا جائز ہے کہ: فلاں اللہ کے ذمے؟

جواب کا خلاصہ

مومن میت کے لیے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ: فلاں اللہ کے ذمے، اگرچہ یہ بات محض میت کے ساتھ خاص نہیں ہے؛ کیونکہ حدیث میں یہ بیان ہو چکا ہے کہ جو شخص فجر کی نماز پڑھے تو وہ اللہ کے ذمے ہوتا ہے، مزید تفصیل اور وضاحت کے لیے تفصیلی جواب ملاحظہ کریں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

کسی کے ذمے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی ضمانت اور دھیان میں ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اس کی حفاظت میں ہے۔

ابن الاثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث مبارکہ میں: ذمہ اور ذمام کا لفظ بار بار آتا ہے ، ان دونوں کا معنی عہد ، امان ، ضمانت، احترام اور حق کے ہیں۔۔۔
انہی مفاہیم سے حدیث کے یہ الفاظ تعلق رکھتے ہیں: { فقد بَرِئَت منه الذِّمة} یعنی: ان میں سے ہر ایک کے لیے اللہ تعالی کا عہد ہے کہ اللہ تعالی ان کی حفاظت فرمائے گا اور ان کا خیال رکھے گا، چنانچہ جب انسان خود ہی ہلاکت میں گرے، یا اللہ تعالی کے حرام کردہ کاموں کا ارتکاب کرے، یا اللہ تعالی کے احکامات کی مخالفت کرے، تو اسے اللہ کا عہد رسوا کر دے گا۔" ختم شد
"النهاية في غريب الحديث" (ص 455)

ایک اور حدیث جس میں "اللہ کا ذمہ" کا ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص فجر کی نماز پڑھے تو وہ اللہ کے ذمے میں ہے؛ لہذا خیال کرنا اللہ تم سے اپنے ذمے کے حوالے سے کوئی مطالبہ نہ کرے ؛کیونکہ جس سے وہ اپنے ذمے میں سے کسی چیز کا مطالبہ کر لے ، اسے پکڑ لیتا ہے اور پھر اسے اوندھے منہ جہنم کی آگ میں ڈال دیتا ہے۔) مسلم: (657)

نووی رحمہ اللہ شرح صحیح مسلم: (5/158) میں کہتے ہیں: اس حدیث مبارکہ میں ذمہ سے مراد ضمانت ہے، جب کہ دوسرے موقف کے مطابق امان مراد ہے۔ ختم شد

لفظ ذمہ کے اس مفہوم کی بنا پر میت کے بارے میں یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ: فلاں اللہ کے ذمے، یعنی اللہ تعالی کی حفاظت میں؛ تو گویا یہ میت کے لیے دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کی حفاظت فرمائے۔ اسی طرح یہ بھی کہتے ہیں: فلاں اللہ کی رحمت میں چلا گیا۔ تو یہ بھی میت کے لیے رحمت کی دعا ہے، یہ کوئی یقینی بات نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے اس پر رحم کر دیا ہے، کیونکہ اس بات کو جاننے کا تو کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کوئی میت کے بارے میں کہتا ہے کہ: فلاں مرحوم نے یہ کہا۔۔۔، یا اللہ تعالی نے اسے اپنی رحمت کے سائے میں رکھا، یا فلاں اللہ کی رحمت میں چلا گیا۔ تو یہ کہنا کیسا ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:
"فلاں مرحوم" یا { تغمده الله برحمته} "اللہ اسے اپنی رحمت میں جگہ دے"، یا اسی جیسے دیگر دعائیہ جملے کہتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ مرحوم کا لفظ تفاؤل اور دعا کے طور پر کہا جاتا ہے، خبر کے انداز میں نہیں؛ لہذا اگر تفاؤل اور دعا کے طور پر کہا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

اسی طرح { انتقل إلى رحمة الله} بھی تفاؤل کے طور پر کہا جاتا ہے، خبر کے انداز میں نہیں؛ کیونکہ یہ چیزیں تو غیب سے تعلق رکھتی ہیں اور غیب سے متعلقہ چیزوں کے بارے میں بالجزم بات کرنا ممکن نہیں ہوتا" ختم شد
"مجموع فتاوی الشیخ ابن عثیمین" (3/85)

ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: مومن میت اللہ تعالی کے ذمہ میں ہوتی ہے۔

جیسے کہ سنن ابو داود: (3204) میں سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں میں سے کسی کی نماز جنازہ پڑھائی، تو میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: اللَّهُمَّ إِنَّ فُلاَنَ بْنَ فُلاَنٍ فِى ذِمَّتِكَ، وَحَبْلِ جِوَارِكَ، فَقِهِ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ النَّارِ، وَأَنْتَ أَهْلُ الْوَفَاءِ وَالْحَمْدِ، اللَّهُمَّ فَاغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ترجمہ: اے اللہ ! فلاں بن فلاں تیرے ذمے ہے اور تیری ہمسائیگی اور امان میں آ گیا ہے ۔ سو تو اسے قبر کی آزمائش اور آگ کے عذاب سے محفوظ فر دے ، تو اپنے وعدے وفا کرنے والا اور حمد کے لائق ہے ۔ اے اللہ ! اسے بخش دے اور اس پر رحم فر ما، بلاشبہ تو بہت ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔
اس حدیث کو البانی نے احکام الجنائز میں صحیح قرار دیا ہے۔

علامہ سندی ابن ماجہ کے حاشیہ میں رقم طراز ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: { فِى ذِمَّتِكَ} کا مطلب ہے: تیری امانت، عہد اور تیری حفاظت میں آ چکا ہے۔
{ وَحَبْلِ جِوَارِكَ } اصل میں عرب کی یہ عادت تھی کہ جب کبھی کسی کو کسی سے خدشات لاحق ہوتے اور کوئی اپنے گھر بار سے باہر سفر کرنا چاہتا تھا تو ہر قبیلے کے سربراہ سے پروانۂ امان حاصل کر لیتا تھا، اس طرح جب تک اس کے قبیلے کی حدود میں رہتا تو اسے امان حاصل ہوتا تھا، پھر جب دوسرے قبیلے کی سرحد شروع ہوتی تو وہاں بھی اسی طرح قبیلے کے سربراہ سے امان طلب کرتا تھا ، تو یہ حبل جوار ہے، یعنی پڑوس سے عہد اور امان حاصل کرنا، یا پھر یہ لفظ { الْإِجَارَةِ } پناہ دینے ، امان اور مدد دینے کے معنی میں ہے۔"
اسی طرح علامہ ملا علی القاری "مرقاة المفاتيح" (3/1209)میں کہتے ہیں:
"{ إِنَّ فُلاَنَ بْنَ فُلاَنٍ فِى ذِمَّتِكَ } یعنی فلاں بن فلاں تیری امانت میں ہے؛ کیونکہ یہ میت تجھ پر ایمان رکھنے والی تھی۔ " ختم شد

خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
مومن میت کے لیے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ: فلاں اللہ کے ذمے، اگرچہ یہ بات محض میت کے ساتھ خاص نہیں ہے؛ کیونکہ پہلے حدیث میں یہ بیان ہو چکا ہے کہ جو شخص فجر کی نماز پڑھے تو وہ اللہ کے ذمے ہوتا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب