الحمد للہ.
" قبوليت حج كے ليے مندرجہ ذيل عمل كرنا ضرورى ہے:
حج خالصتا اللہ تعالى كے ليے ہو اور اسے اخلاص كہا جاتا ہے، اور يہ كہ حج نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ كے مطابق ہونا چاہيے، جسے اتباع اور پيروى كا نام ديا جاتا ہے، اور پھر كوئى بھى عمل صالحہ اس وقت تك قبول نہيں ہوتا جب تك اس ميں دو اساسى اور بنيادى شرطيں نہ پائيں جائيں:
ايك تو اخلاص اور دوسرى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع اور پيروى كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور انہيں تو حكم ہى يہى ديا گيا ہے كہ وہ اس كے ليے دين كو خالص كرتے ہوئے صرف اللہ تعالى كى عبادت كريں، اور نماز كى پابندى كريں اور زكاۃ ادا كريں اور يہى مضبوط دين ہے البينۃ ( 5 )
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى ہو "
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے ہمارے اس معاملہ ( دين ) ميں كوئى ايسا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "
حاجى كے ليے سب سے اہم يہى چيز ہے جس پر اسے اعتماد كرنا واجب ہے كہ وہ اخلاص اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع اور پيروى كرے اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے حج ميں فرمايا تھا:
" مجھ سے اپنے مناسك لے لو"
اور حج كى قبوليت والے اعمال ميں يہ بھى شامل ہے كہ حج حلال مال سے كيا جائے، كيونكہ حرام مال كے ساتھ حج كرنا حرام اور ناجائز ہے، بلكہ بعض علماء كرام كا تو كہنا ہے كہ:
اس حالت ميں حج صحيح نہيں ہو گا.
اور بعض كہتے ہيں:
جب تم ايسے مال سے حج كرو جس اصلا حرام كا مال ہو تو پھر تم نے حج نہيں كيا ليكن اونٹ نے حج كر ليا.
اور ان اعمال ميں يہ بھى شامل ہے كہ اللہ تعالى كے منع كردہ امور سے اجتناب كيا جائے:
فرمان بارى تعالى ہے:
حج كے مہينہ معلوم ہيں لہذا جس نے بھى ان مہينوں ميں حج فرض كر ليا تو حج ميں نہ تو بيوى سے مباشرت اور بے ہودگى اور فسق و فجور ہے اور نہ ہى لڑائى جھگڑا البقرۃ ( 197 ).
اس ليے اسے حج ميں ہر اس چيز سے اجتناب كرنا ہو گا جو اللہ تعالى عمومى طور پر حرام كي ہيں، مثلا فسق و فجور اور نافرمانى، اور حرام اقوال و افعال، اور لہو لعب اور موسيقى كے آلات كا استعمال، اور اسى طرح اسے خصوصا حج ميں حرام كردہ اشياء سے بھى اجتناب كرنا ہو گا مثلا: رفث يعنى بيوى سے ہم بسترى كرنا، سر منڈانا، اور احرام كى حالت ميں جن اشياء كے پہننے سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع كيا ہے اس سے اجتناب كرنا، يعنى عام عبارت ميں اسطرح كہ احرام كى تمام ممنوعہ اشياء سے اجتناب كرنا.
اور حجاج كرام كے ليے يہ بھى ضرورى ہے كہ وہ اپنے مال اور عمل ميں نرمى اور سہولت اختيار كرے، اور بقدر استطاعت اپنے مسلمان بھائيوں كے ساتھ احسان اور اچھا برتاؤ كرے، اور مسلمانوں كو ايذا رسانى سے اجتناب كرنا اس پر واجب ہے، چاہے وہ مشاعر مقدسہ ميں ہو يا پھر بازاروں ميں، اور اسى طرح اسے طواف اور سعى والى جگہ ميں ازدھام كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے اور جمرات پر بھى ازدھام كا باعث نہ بنے.
يہ وہ امور ہيں جو ايك حاجى كو كرنے چاہيے يا جو ايك حاجى پر كرنے واجب ہيں، اور يہ سب كچھ اس طرح ہو سكتا ہے كہ:
انسان اہل علم كى صحبت اختيار كرے تا كہ وہ اسے اس كا دين ياد كراتا رہا، اور اگر كسى عالم دين كے ساتھ حج كرنا ميسر نہ ہو سكے تو پھر اسے حج سے اہل علم كى وہ كتابيں پڑھنى چاہيں جو ثقہ اور صحيح ہيں، تا كہ وہ حج بصيرت پر كر سكے. انتہى
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين رحمہ اللہ ( 21 / 20 ).
واللہ اعلم .