الحمد للہ.
" اہل علم كا راجح قول يہى ہے كہ حج فورا واجب ہوتا ہے، اور انسان كے ليے اسے بغير كسى شرعى عذر مؤخر كرنا جائز نہيں، كيونكہ انسان كو علم نہيں اسے كيا پيش آجائے، ہو سكتا ہے وہ اس برس حج كو مؤخر كرے اور پھر حج اس كے ذمہ قرض باقى رہے، ليكن اگر حج اس كے امتحانات پر اثر انداز ہوتا ہو تو وہ حج كو آئندہ برس تك مؤخر كرسكتا ہے، ليكن ميں يہاں اس طرف اشارہ كرنا چاہتا ہوں كہ وہ اپنے امتحانات كے دروس ساتھ حج پر لے جائے اور حج كرے، يہ تو اس وقت ہے جب وہ جلد مكہ جانا چاہتا ہو، اور يہ بھى ممكن ہے كہ وہ اپنے سفر كو حج تك مؤخر كر دے، اور پھر منى كے ايام ميں جلدى كر لے تو اس طرح حج ميں اس كے اتنے دن صرف ہونگے جو ان شاء اللہ اس كے امتحانات پر اثر انداز نہيں ہونگے.
ايك حريص انسان كے ليے حج كرنا ممكن ہے، اور حج اس پر كوئى اثر انداز نہيں ہوگا، جيسا كہ جب انسان اللہ تعالى پر توكل اور بھروسہ كرتے ہوئے حج كرے تو اللہ تعالى اس كے معاملے ميں آسانى پيدا فرمائے گا" انتہى
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 63 ) كچھ كمى و بيشى كے ساتھ
واللہ اعلم .