الحمد للہ.
شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ يہ تجارتى سامان ميں حصہ دارى ہے؛ كيونكہ جو لوگ زمين ميں حصہ ڈالتے ہيں، ان كا ارادہ تجارت اور كمائى ہوتى ہے، اس بنا پر ان پر ہر سال اس كى قيمت لگوانے كے بعد زكاۃ كى ادائيگى لازم ہو گى اگر اس نے تيس ہزار كا حصہ ڈالا ہے اور سال مكمل ہونے كے وقت ان حصص كى قيمت ساٹھ ہزار ہو تو اس پر ساٹھ ہزار كى زكاۃ ادا كرنى واجب ہو گى.
اور اگر سال مكمل ہونے كےوقت وہ دس ہزار صرف دس ہزار كے برابر ہوں تو اس كے ذمہ صرف دس ہزار كى زكاۃ ہو گى، سائل كے ذمہ جو باقى برسوں كى زكاۃ ہے وہ اس طرح اندازہ كرتے ہوئے ہر برس كى زكاۃ ادا كرے، ليكن اگر يہ حصص ابھى تك فروخت نہيں ہوئے تو جب يہ فروخت ہوں تو اس وقت اس كى زكاۃ ادا كى جائے، ليكن انسان كى اس ميں سستى نہيں كرنى چاہيے، بلكہ اللہ تعالى نے جو مقدر كيا ہے وہ فروخت كرے اور اس كى زكاۃ ادا كر دے" انتہى .