سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

حالت حیض اورنفاس میں بیوی سے جماع کی حرمت میں حکمت

43028

تاریخ اشاعت : 31-03-2004

مشاہدات : 62091

سوال

نفاس اورحیض کی حالت میں بیوی سے ہم بستری کی حرمت میں کیا حکمت ہے ؟
اوراگرحرمت کا سبب خون ہے کیونکہ وہ خون پلید اورنجس ہے توپھر کیا کنڈوم ( غبارہ ) استعمال کرکے ہم بستری کرنا جائز ہوگا کہ نہیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ سبحانہ وتعالی نے مردوں پر بیویوں سے حالت حیض میں ہم بستری کرنا حرام کی ہے ، قرآن مجید نے حرمت کی علت بھی بیان کی ہے اورحیض کوگندگی کہا ہے فرمان باری تعالی ہے :

آپ سے حيض کے بارہ میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دیجۓ کہ وہ گندگی ہے ، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو البقرۃ ( 222 ) ۔

اوراس کے بارہ میں علمی ریسرچ بھی ہمارے لیے اس میں سے کچھ گندگي کا انکشاف کرتی ہے جس کا آیت کریمہ میں اشارہ کیا گيا ہے ، لیکن وہ بھی پوری طرح اس گندگی تک نہیں پہنچ سکے جوآيت قرآنی بیان کرتی ہے ۔

ڈاکٹر محیی الدین العلبی کا کہنا ہے :

حیض والی عورت سے حالت حيض میں جماع کرنے سے رکنا واجب اور ضروری ہے ، اس لیے کہ اس سے جماع اورہم بستری کرنے کی بنا پرحيض کے خون مین شدت اورتیزي پیدا ہوتی ہے ، کیونکہ رحم کی رگیں دباؤ کا شکاراوررکیں ہوئي ہوتی ہیں ان کا پھٹنا آسان اورجلدی خراب ہوجاتی ہیں ۔

اوراسی طرح اندرونی پردے میں خراشیں پیدا ہونا بھی آسان ہوتی ہيں جس کی بنا پر جلن اورخارش کے پیدا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں جو رحم کے اندر بھی سوجن اورجلن پیدا کرنے کا با‏عث بنتے ہیں ، اوراسی طرح مرد کے عضو تناسل میں بھی جلن اورخارش پیدا ہوتی ہے جس کا سبب عورت سے اثناء جماع خراش وغیرہ کا پیدا ہونا ہے ۔

اوراسی طرح حا‏ئضہ عورت سے جماع کرنا خاوند اوربیوی کے مابین نفرت کا باعث بنتا ہے جس کا سبب گندے خون کی موجودگی اوراس کی بدبو ہے ، جوہوسکتا ہے مرد پر اثرانداز ہواور اسے روک ( جنسی کام نہ کرنے کی ) کی بیمار لگ جائے ۔

ڈاکٹر محمد البار حیض کی گندگی کے بارہ میں بات کرتے ہوئے کچھ اس طرح کہتے ہیں :

رحم کے اندر کا پردہ مکمل طور پر حیض کے دوران الٹ دیا جاتا ہے ۔۔۔ اوراس کے نتیجہ میں پورا رحم مکمل طور پرخارش زدہ ہوجاتا ہے جس طرح کہ جلد اتری ہوئي ہو اوراس میں آسانی سے بے حسی پیدا کرنے والے بیکٹیریا کے حملہ کے لیے تیار ہوجاتا ہے ، اوراس صورت میں مرد کے عضو تناسل پر موجود جراثیم آسانی سے رحم میں داخل ہوجاتے ہیں جوکہ رحم کے لیے بہت ہی خطرناک ہيں ۔

اس لیے حيض کی حالت ميں عورت سے ہم بستری توصرف ایسے جراثیم اورمیکروباٹ کوایسے وقت میں داخل کرنا ہے جبکہ اندرونی دفاعی نظام ان سے دفاع کی طاقت نہیں رکھتا ۔

اورڈاکٹر بار کا یہ بھی خیال ہے کہ : یہ اذیت اورگندگی یہاں تک ہی نہیں رہتی کہ رحم اورشرمگاہ سے لیکر رحم تک کی نالی میں بھی وہ جراثیم داخل ہوتے ہيں جن کا علاج کرنا بھی مشکل ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت ساری بمیاریاں لگتی ہيں :

1 – التھابات اورجلن اورسوجن رحم کے منہ تک پہنچ کراسے بند کردیتی ہے ، جوکہ بعض اوقات بانجھ پن تک لے جاتی ہے اوریا پھر رحم کے باہر ہی حمل ہوجاتا ہے ، ایسا حمل مطلق طور پر سب میں سے خطرناک حمل ہے ۔

2 - پیشاب کی نالی تک جلن اورسوزش جاپہنچتی ہے اورپھر اس سے بھی آگے مثانہ اورگردوں میں بھی چلی جاتی ہے ، اور پیشاب کے نظام میں امراض کا پیدا ہونا بہت ہی خطرناک اورپرانی بیمای بن جاتی ہے ۔

3 - حیض کے خون میں جراثیم کی کثرت اورخاص کر سیلان کے مرض کے جراثيم بہت زيادہ پیدا ہوجاتے ہيں ۔

اورپھر عورت بھی حالت حیض میں جسمانی اورنفسیاتی طور پر ایسی حالت میں ہوتی جوہم بستری کی اجازت نہیں دیتی ، اوراگرایسا ہوجائے تویہ اسے بہت ہی زيادہ اذیت دیتا ہے ، اوراس کے ساتھ ساتھ اسے دوران حیض بہت سے دردوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔

ڈاکٹر بار کا کہنا ہے :

1 - حیض کی حالت میں بہت قسم کی دردیں ہوتی ہیں جس کی شدت بھی عورتوں میں مخلف ہوتی ہے ، اوراکثر عورتیں تو حالت حيض میں کمراور پیٹ کے نچلے حصہ میں درد محسوس کرتی ہیں ، اورکچھ عورتوں کوتو اتنی شدت کی درد ہوتی ہے کہ انہيں اس تکلیف کی کمی کے لیے ادویات اورسکون والی اشیاء استعمال کرنی پڑتی ہیں ۔

2 - اکثرعورتیں حیض کے ابتدائي ایام میں توبہت کی شدید قسم کی تنگی اورتکلیف محسوس کرتی ہیں ، اور اسی طرح اس کی عقلی اورفکری حالت بھی بہت ہی زيادہ پتلی ہوچکی ہوتی ہے ۔

3 - بعض عورتوں کو تو آدھے سر کی درد ہوتی ہے ، اوریہ دردیں تھکا دینے والی ہوتی ہیں اوراس کے ساتھ ساتھ پانی کا اخراج اورقئی بھی ہوتی ہے ۔

4 - عورت میں جنسی رغبت کی کمی واقع ہوجاتی ہے ، بلکہ اکثر عورتیں تو دوران حيض مکمل طور پر ہم بستری سے بے رغبت ہوتی ہیں ، اورسارے کے سارے تناسلی اجزاء تقریبا بیماری کی حالت کے مشابہ ہوتے ہیں ، توان حالات میں ہم بستری ( جماع ) کوئي طبعی چيز نہیں اورنہ ہی اس کا کوئي فائدہ ہی ہوتا ہے بلکہ اس کے برعکس بہت سی بیماریاں لگنے کا خدشہ ہوتا ہے ۔

5 - دوران حیض عورت کا درجہ حرارت سوفیصدی نیچے گرجاتا ہے ، اوردرجہ حرارت گرنے کی بنا پر نبض بھی آہستہ ہوجاتی ہے ، اورپھر خون کا دباؤ بھی کم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے سستی و کاہلی اورسردرد اورچکر سے آنے لگتے ہیں ۔

ڈاکٹر بار کا یہ بھی کہنا ہے کہ :

حائضہ عورت سے ہم بستری کرنے کی بنا پر صرف تکلیف اورگندگی اوربیماری اس عورت تک ہی محدود نہيں رہتی بلکہ اس سے جماع کی وجہ سے آدمی میں بھی منتقل ہوتی ہے ، جس کی بنا پر تناسلی اجزا میں سوزش اورجلن وغیرہ پیدا ہو کر بعض اوقات بانجھ پن پیدا کردیتا ہے ۔

اوراسی طرح وہ تھکا دینے والی دردیں مریض جن کا اس سوزش اورجلن کی بنا پر سامنا کرتا ہے وہ اس سوزش اورجلن سےبھی بڑھ کر بانجھ پن تک لے جاتی ہیں ۔

اوراس کے علاوہ بھی بہت ہی زیادہ نقصانات ہیں جن کا ابھی تک انکشاف نہیں ہوسکا ، بلکہ اللہ تعالی نے انہیں صرف گندگی سے تعبیر کیا ہے جوکہ اس فرمان باری تعالی میں ہے :

آپ کہہ دیجۓ کہ وہ گندگی ہے توحالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو ، اورپاک صاف ہونے سے قبل ان کے قریب نہ جاؤ ۔

تواللہ تعالی نے یہاں پر اسے گندگي کا وصف دیا ہے کہ یہ بیوی کے لیے گندگی اوراذیت ہے ، اوراسی طرح خاوند کے لیے بھی وہ ایک گندگي اوراذيت کے علاوہ اوربھی بہت سے نقصانات ہیں جنہیں صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے ۔

تواس طرح یہ پتہ چلا کہ عورت سے حالت حيض میں ہم بستری کرنا صرف اس کے خون کی وجہ سے نہیں بلکہ اوربھی بہت سے اسباب کی بنا پر ہے جو کہ اوپر کی سطور میں بیان ہو چکے ہیں ۔

اوراسی طرح مسلمان پر یہ ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس کی اطاعت کرے کیونکہ وہ خالق ہے اوراسے یہ علم ہے کہ اس کے بندوں کے لیے کون سی چيز اچھی ہے اوراس میں ان کی مصلحت ہے اوران کے لیے کیا نقصان دہ ہے ، اسی نے یہ فرمایا ہے :

حالت حيض میں عورتوں سے الگ رہو البقرۃ ( 222 ) ۔

حتی کہ اگر کسی شخص کو اس کی حرمت کی کوئي حکمت نہ بھی معلوم ہو پھر بھی اس پرضروری اورواجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کے حکم کو تسلیم کرے اوراس کی اطاعت کرتا ہوا اپنی بیوی سے اس مدت میں ہم بستری کوچھوڑ دے ۔

دیکھیں کتاب : الحیض والنفاس والحمل بین الفقہ والطب ۔ تالیف ڈاکٹر عمر الاشقر ۔

اورکتاب توضیح الاحکام ۔ تالیف البسام ( 1 / 362 ) ۔

لیکن اس کے باوجو مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی سے شرمگاہ کے علاوہ مباشرت اورکھیل سکتا ہے ۔

آپ مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 36740 ) اور سوال نمبر ( 36722 ) اور ( 36864 ) کے جوابات کا بھی مطالعہ کریں ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب