الحمد للہ.
جس ہوٹل ميں گناہ اور معصيت كا ارتكاب كيا جاتا ہومثلا شراب نوشى، اور زنا وغيرہ تو اس ہوٹل ميں كام كرنا جائز نہيں ہے، كيونكہ ايسا كرنے ميں گناہ ومعصيت اور ظلم و زيادتى ميں معاونت، اور برائى كا عدم انكار ہے، حالانكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور اللہ تعالى تمہارے پاس اپنى كتاب ميں يہ حكم اتار چكا ہے كہ جب تم اللہ تعالى كى آيات كے ساتھ كفر كرتے ہوئے اور مذاق كرتے ہوئے سنو تو تم اس مجمع ميں ان كے ساتھ اس وقت تك نہ بيٹھو جب تك كہ وہ كسى اور بات ميں مشغول نہ ہو جائيں، ( اگر تم بيٹھو گے تو ) تم بھى انہيں جيسے ہو گے، بلا شبہ اللہ تعالى منافقوں اور كافروں كو جہنم ميں جمع كرنے والا ہےالنساء ( 140 ).
امام قرطبى رحمہ اللہ تعالى اس آيت كى تفسير ميں كہتے ہيں:
فرمان بارى تعالى:
تو تم اس مجمع ميں ان كے ساتھ اس وقت تك نہ بيٹھو جب تك كہ وہ كسى اور بات ميں مشغول نہ ہو جائيں.
يعنى كفر كے علاوہ دوسرى باتوں ميں.
( اگر تم بيٹھو گے تو ) تم بھى انہيں جيسے ہو گے.
تو يہ اس بات كى دليل ہے كہ جب گناہ اور معصيت ظاہر ہو تو معاصى اور گناہ كرنے والوں سے اجتناب كرنا واجب ہے؛ كيونكہ جو ان سے اجتناب نہيں كرتا اور ان كے ساتھ بيٹھتا ہے، وہ ان كى معصيت اور فعل پر راضى ہے، اور كفر پر رضامندى كفر كا ارتكاب ہے، اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
( اگر تم بيٹھو گے تو ) تم بھى انہيں جيسے ہو گے.
لھذا جو شخص بھى معصيت و نافرمانى والى مجلس اور جگہ ميں بيٹھے اور برائى كو نہ روكے تو وہ بھى ان كے ساتھ گناہ ميں برابر كا شريك ہے.
يہ ضرورى ہے كہ جب وہ معصيت اور گناہ كى بات اور اس پر عمل كريں تو انہيں اس سے منع كيا جائے، اور اگر وہ انہيں روك نہيں سكتا تو اسے وہاں سے اٹھ جانا چاہيے، تا كہ وہ بھى اس آيت ميں مذكور لوگوں ميں سے نہ ہو جائے.
عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ تعالى سے بيان كيا جاتا ہے كہ: انہوں نے شراب نوشى كرنے والے كچھ لوگوں كو پكڑ ليا، تو حاضرين ميں سے ايك شخص كے بارہ ميں ان سے كہا گيا كہ: وہ تو روزہ سے ہے، تو انہوں اس كى تاديب زيادہ كى ( يعنى اسے سزا اور تعزير سخت دى ) اور يہ آيت تلاوت كى:
( اگر تم بيٹھو گے تو ) تم بھى انہيں جيسے ہو گے.
يعنى معصيت ونافرمانى پر راضى ہونا بھى معصيت و نافرمانى ہى ہے، اور اسى ليے معصيت كا ارتكاب كرنے والے اور اس پر راضى ہونے والے شخص كو گناہوں كى سزا دى جاتى ہے، حتى كہ وہ سب ہلاك ہو جاتے ہيں.
اور يہ مماثلت سارى صفات ميں نہيں ہے، ليكن مقارنہ ميں سے ظاہرى حكم كے مشابہ ہے، جيسا كہ كہا جاتا ہے:
( ہر دوستى لگانے والا اپنے دوست كى اقتدا كرتا ہے ) انتھى
پھر خدشہ ہے كہ ان جيسى جگہوں پر كام اور ملازمت كرنے والے شخص كا ايمان كمزور ہو جائے، اور اس كے دل سے غيرت نامى چيز ہى جاتى رہے، اور ہو سكتا ہے شيطان اسے معصيت و نافرمانى كرنے كى دعوت ہى دے ڈالے.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو! شيطان كى پيروى اور اتباع نہ كرو، اور جو كوئى بھى شيطان كى پيروى اور ابتاع كرے تو وہ تو بے حيائى اور برے كاموں كا ہى حكم كرے گا.النور ( 21 )
اور ميرے عزيز بھائى آپ اللہ تعالى كا فرمان ياد ركھيں:
فرمان بارى تعالى ہے:
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اور پرہيزگارى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اس كا وہم و گمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى پر توكل اور بھروسہ كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے كافى ہو جاتا ہے، يقينا اللہ تعالى اپنا كام پورا كر كے ہى رہے گا، اور اللہ تعالى نے ہر چيز كا ايك اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 - 3 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان بھى ياد ركھيں:
" جس كسى نے بھى كوئى چيز اللہ تعالى كے ليے ترك كى اللہ تعالى اسے اس كے عوض ميں اس سے بھى بہتر اور اچھى چيز عطا فرماتا ہے"
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.
اور آپ يہ ہرگز نہ بھوليں كہ كوئى بھى نفس اپنا رزق پورا كرنے سے قبل مرتا نہيں، چاہے وہ دير ميں پورا كرے يا جلد پورا كر لے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اس ملازمت كے ترك كرنے ميں آپ كى مدد كرے اور معاونت فرمائے، اور آپ كو اس كے ترك كرنے پر رضامندى دے، اور اس كے عوض ميں آپ كو بہتر اور اچھى ملازمت عطا كرے، اور اپنى رحمت و فضل كے خزانے آپ كے ليے كھول دے، اور زيادہ سے زيادہ عطا كرے، اور ہميں اور آپ كو اپنے حلال كے ساتھ حرام سے بے غنى اور بے پرواہ كردے، وہ اپنے علاوہ باقى سب دوسروں سے پاك ہے.
واللہ اعلم .