سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

كيا اسلام تلوار كے ساتھ پھيلا ہے ؟

43087

تاریخ اشاعت : 09-06-2008

مشاہدات : 12004

سوال

كيا اسلام تلوار كے زور سے پھيلا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سوال نمبر ( 34830 ) كے جواب ميں بيان كيا جا چكا ہے كہ جھاد كى دو قسميں ہيں: ہجومى اور دفاعى.

اس ميں كوئى شك نہيں كہ اسلام پھيلانے ميں ہجومى جھاد كا بہت زيادہ دخل اور اثر ہے، اور گروہ در گروہ لوگوں كا اسلام ميں داخل ہونے ميں بھى اسى كا اثر تھا.

اسى ليے دشمنان اسلام كے دلوں ميں جھاد كا رعب اور دبدبہ بھرا ہوا ہے.

انگريزى زبان كا انٹرنيشل اسلامى ميگزين ميں مضمون آيا ہے كہ:

يورپى دنيا پر كچھ نہ كچھ خوف طاري رہنا ضرورى ہے، اور اس خوف كے كئى ايك اسباب ہيں، جن ميں يہ سبب بھى ہے كہ جب سے اسلام مكہ مكرمہ ميں ظاہر ہوا اس وقت سے اس كى افرادى قوت بڑھ رہى، بلكہ ہميشہ ہى افرادى قوت زيادہ ہو رہے اور پھيل رہے ہيں، پھر اسلام صرف دين ہى نہيں بلكہ اس كے اركان ميں جھاد جيسى اشياء بھى شامل ہيں. اھـ

اور رابرٹ پين كہتا ہے:

يقينا اس سے قبل بھى مسلمانوں نے پورى دنيا ميں جنگيں لڑى ہيں اور وہ ايك بار پھر ايسا كريں گے. اھـ

مستشرقين نے اسلام ميں طعن كرنے كى كوشش كرتے ہوئے كہا ہے كہ اسلام تلوار كے زور سے پھيلا.

مستشرق ٹومس ارنالڈ نے " اسلام كى دعوت " نامى ايك كتاب لكھى ہے جس كا مقصد مسلمانوں ميں جھادى روح ختم كرنا اور مٹانا تھا، اس ميں اس نے اپنے خيال كے مطابق يہ ظاہر كرنے كى كوشش كى ہے كہ اسلام تلوار كے زور سے نہيں پھيلا، بلكہ دعوت و تبليغ كے ذريعہ سے پھيلا ہے جو ہر قسم كى قوت سے خالى اور برى اور سليم تھى.

مسلمان بھى اس پھيلائے ہوئے جال ميں پھنس گئے ہيں، لھذا جب وہ كسى مستشرق كى جانب سے كسى كو اسلام پر حملہ كرتے ہوئے سنتے ہيں كہ اسلام تلوار كے زور سے پھيلا ہے، تو وہ جواب ديتے ہيں كہ تم اپنى نسل كے آدمى كى بات سنو جو اس كا رد كرتے ہوئے اس طرح كہتا ہے، اور اس نے يہ كچھ كہا ہے.

مسلمانوں ميں سے كچھ شكست خوردہ ذہنيت كے مالك لوگ نكلے تو اسلام كا دفاع كرنے كى كوشش كرتے ہيں، اور اپنے خيال ميں انہوں نے دين اسلام كو اس بہتان سے برى كرنے كى كوشش كى، اور اس طرح انہوں نے اسلام تلوار سے پھيلنے كى نفى كرنا شروع كردى، اور اس كے نتيجہ ميں انہوں نے اسلام ميں جھاد كى مشروعيت كى نفى كردى، صرف دفاعى جھاد كرنا جائز قرار ديا، ليكن ان كے ہاں ہجومى جھاد يعنى كافر پر ان كے ملك ميں جا كر حملہ كرنے كا وجود ہى نہيں ملتا، يہ قرآن و سنت كے مخالف تو ہے ہى ليكن مسلمان آئمہ كرام كے فيصلوں كے بھى خلاف ہے.

شيخ الاسلام مجموع الفتاوى ميں كہتے ہيں:

" مقصد يہ ہے كہ سارے كا سارا دين اللہ تعالى كے ليے ہو، اور اللہ تعالى كا كلمہ ہى بلند ہو، اور " كلمۃاللہ " اللہ تعالى كا كلمہ " ان سب كلمات كو متضمن ہے جو كتاب يعنى قرآن ميں ہيں.

اور اسى طرح اللہ تعالى نے فرمايا ہے:

يقينا ہم نے اپنے رسولوں كو كھلى دليليں دے كر بھيجا اور ان كے ساتھ كتاب اور ميزان نازل فرمايا تا كہ لوگ عدل و انصاف پر قائم رہيں.الحديد ( 25 )

لھذا رسولوں كو بھيجنے اور كتابيں نازل كرنے كا مقصد يہ ہے كہ لوگ اللہ تعالى اور اس كى مخلوق كے حقوق ميں عدل و انصاف قائم ركھيں.

پھر اسى آيت ميں اس كے بعد اللہ تعالى نے فرمايا:

اور ہم نے لوہے كو اتارا جس ميں سخت ہيبت و قوت ہے، اور لوگوں كے ليے بہت سے فائدے ہيں، اور اس ليے بھى كہ اللہ جان لے كہ اس كى اور اس كے رسولوں كى بے ديكھے مدد كون كرتا ہے الحديد ( 25 ).

لھذا جس نے بھى كتاب اللہ تعالى انحراف كيا اسے لوہے ( اسلحہ ) كے ساتھ سيدھا كيا جائے گا، اور اسى ليے دين كى درستگى قرآن اور تلوار كے ساتھ ہوتى رہى .

جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں حكم ديا كہ جو كوئى بھى اس مصحف و قرآن سے انحراف كرے اسے تلوار كے ساتھ مارو. اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى لابن تيميۃ ( 28 / 263 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب" الفروسيۃ " ميں كہتے ہيں:

اور اللہ تعالى نے اسے يعنى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو قيامت سے قبل كتاب اور ہدايت اور مدد والى تلوار كے ساتھ مبعوث كيا تا كہ اللہ وحدہ لا شريك كى عبادت كى جائے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى روزى ان كى تلوار اور نيزے كے نيچے ركھى.... كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے دين اسلام كو دليل و برھان اور حجت اور تلوار و نيزے كے ساتھ قائم كيا ہے، اور يہ دونوں اشياء مدد كرنے ميں سگھے بھائى كى حيثيت ركھتى ہيں. اھـ

ديكھيں: الفروسيۃ ( 18 ).

ذيل ميں ہم كتاب و سنت ميں سے چند ايك دلائل پيش كرتے ہيں جو اس بات كا بين ثبوت ہيں كہ اسلام كے پھيلنے ميں تلوار نے اہم كردار ادا كيا، اور اسلام كے پھيلنے كے اسباب ميں ايك اہم سبب تلوار بھى ہے:

1 - فرمان بارى تعالى ہے:

اور اگر اللہ تعالى آپس ميں لوگوں كو ايك دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو عبادت خانے اور گرجے اور مسجديں اور يہوديوں كے معبد اور وہ مسجديں بھى منہدم كردى جاتيں جہاں اللہ تعالى كا نام كثرت سے ليا جاتا ہے، جو اللہ تعالى كى مدد و نصرت كرے گا اللہ تعالى بھى ضرور اس كى مدد و نصرت كرے گا، بيشك اللہ تعالى بڑى قوتوں والا بڑے غلبے والا ہے الحج ( 40 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور اگر اللہ تعالى بعض لوگوں كو بعض سے دفع نہ كرتا تو زمين ميں فساد پھيل جاتا، ليكن اللہ تعالى دنيا والوں پر فضل و كرم كرنےوالا ہے البقرۃ ( 251 ).

2 - اوراللہ سبحانہ وتعالى نے كفار كے خلاف جھاد كرنے اور انہيں دہشت زدہ كرنے كے ليے تيارى كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:

تم ان كے مقابلے كے ليے اپنى طاقت بھر قوت كى تيارى كرو، اور گھوڑوں كے تيار ركھنے كى كہ تم اس سے اللہ تعالى اور اپنے دشمنوں كو خوفزدہ ركھ سكو، اور ان كے علاوہ دوسروں كو بھى جنہيں تم نہيں جانتے ليكن اللہ تعالى انہيں جانتا ہےالانفال ( 60 ).

اگر اسلام صرف دعوت و تبليغ سے ہى پھيلا ہوتا تو پھر كفار كس چيز سے ڈرتے پھرتے ہيں؟ كيا ايسى كلام اور بات سے جو صرف زبان سے نكلنى ہے؟

صحيحين ميں مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميرى ايك ماہ كى مسافت پر رعب كے ساتھ مدد كى گئى ہے"

كيا كفار صرف اتنى بات سے ہى رعب كھانے لگتيں ہيں كہ انہيں يہ كہا جائے كہ اسلام قبول كرلو، اور اگر اسلام قبول نہيں كرتے تو تم اپنے عقيدے اور اعمال ميں آزاد ہو جو چاہے كرتے پھرو اور جو چاہو عقيدہ ركھو. ؟

يا كہ وہ جھاد و قتال اور ان پر جزيہ اور ذلت مسلط ہونے سے خوفزدہ ہيں اور دہشت كھا رہے ہيں؟ جو انہيں اس ذلت اور رسوائى سے بچانے كے ليے اسلام قبول كرنے پر ابھارتا ہے.

3 - اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو لوگوں كو ايسى دعوت ديتے تھے جو تلوار كے ساتھ ملى ہوتى، اور اپنے كمانڈروں كو بھى يہى حكم جارى كرتے، ہو سكتا ہے كہ جب لوگ مسلمانوں كى اپنے دين كى دعوت دينے ميں قوت و طاقت اور جدوجھد ديكھيں تو ان سے پردے عليحدہ ہو جائيں.

بخارى اور مسلم نے سھل بن سعد رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خيبر كے دن فرمايا:

" ميں صبح جھنڈا ايسے شخص كو دونگا جو اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كرتا ہے، اس كے ہاتھ پر فتح نصيب ہوگى، تو لوگوں وہ رات يہ سوچتے ہوئے بسر كى كہ جھنڈا كسے ديا جائےگا، اور صبح ہر كوئى شخص اس جھنڈے كى اميد لگائے ہوئے تھا.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" على رضى اللہ تعالى عنہ كہاں ہے؟ رسول كريم صلى اللہ عليہ سے عرض كى گئى ان كى آنكھوں ميں درد ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى آنكھوں ميں تھوك لگايا اور دعا كى تو آنكھيں صحيح ہو گئيں، ايسے كہ كبھى ان ميں درد ہوا ہى نہيں، اور على رضى اللہ تعالى عنہ كو جھنڈا ديا تو وہ كہنے لگے:

ميں ان سے اس وقت تك لڑوں جب تك وہ ہمارى طرح مسلمان نہيں ہو جاتے؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اطمنان اور آسانى سے جاؤ حتى كہ جب تم ان كے علاقے ميں پہنچو تو انہيں اسلام قبول كرنے كى دعوت دو، اور ان پر جو كچھ واجبات ہيں اس كى انہيں خبر دو، اللہ كى قسم اگر اللہ تعالى نے تيرے ذريعہ ايك شخص كو بھى ہدايت دے دى تو تيرے ليے سرخ اونٹوں سے زيادہ قيمتى اور بہتر ہے" د

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3009 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2406 )

تو يہ دعوت الى اللہ سبحانہ وتعالى اسلحہ كى قوت سے ساتھ ملى ہوئى ہے اس كے بغير مكمل نہيں.

مسلم رحمہ اللہ تعالى نے بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب كسى لشكر اور پارٹى كا امير مقرر كرتے تو اسے اور اس كے ساتھ مسلمانوں كو بھلائى كى نصيحت كرتے اور پھر فرماتے:

" اللہ تعالى كا نام لے كر اللہ تعالى كے راستے ميں جنگ كرو، اللہ كے ساتھ كفر كرنے والوں كے ساتھ قتال كرو، غزوہ كرو اور خيانت مت كرو، اور دھوكہ نہ دو، اور مثلہ نہ كرو، اور نہ ہى بچے كو قتل كرو، اور جب تم اپنے دشمن مشركوں كو ملو تو انہيں تين باتوں كى دعوت دو، اس ميں جو بھى وہ مان ليں تو وہ ان سے قبول كرو، اور ان سے رك جاؤ، پھر انہيں اسلام كى دعوت دو اگر تو وہ آپ كى بات تسليم كرليں تو قبول كرتے ہوئے رك جاؤ... اور اگر وہ انكار كرديں تو پھر ان سے جزيہ دينے كا مطالبہ كرو، اگر وہ مان ليں تو قبول كرتے ہوئے ان سے رك جاؤ، اور اگر انكار كرديں تو پھر اللہ تعالى سے مدد طلب كرو اور ان سے لڑائى اور جنگ كرو..... الحديث .

صحيح مسلم حديث نمبر ( 3261 ).

يہ ديكھيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے امراء اور كمانڈروں كو حكم دے رہے ہيں كہ وہ كفار كو اسلام كى دعوت ديں تو انہوں نے كفار كے سر پر تلوار لٹكا كر ركھى ہو، اور اگر وہ اسلام قبول كرنے سے انكار كرتے ہيں تو ذليل ہو كر جزيہ دينے پر راضى ہوں، اور اگر وہ اس كا بھى انكار كرتے ہيں تو پھر سوائے تلوار كے اور كچھ نہيں.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اگر وہ اس كا بھى انكار كرديں تو پھر اللہ كى مدد طلب كرتے ہوئے ان سے قتال اور لڑائى كريں"

4 - اور ايك دوسرى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ميں قيامت سے قبل تلوار دے كر مبعوث كيا گيا ہوں حتى كہ اللہ وحدہ لا شريك كى عبادت ہونے لگے، اور ميرا رزق ميرے نيزے كے نيچے ركھا گيا ہے، اور جو شخص بھى ميرى مخالفت كرتا ہے اس پر ذلت و رسوائى مسلط كر دى گئى ہے، اور جو بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كرتا ہے وہ ان ميں سے ہى ہے"

مسند احمد حديث نمبر ( 4869 ) صحيح الجامع حديث نمبر ( 2831 )

اسلام كے پھيلنے كے اسباب ميں تلوار اور قوت كا سبب بننا اسلام كے ليے كوئى عيب كى بات نہيں، بلكہ يہ تو اسلام كى خصوصيات اور محاسن ميں شامل ہوتا ہے كہ وہ لوگوں پر ايسى چيز لازم كر رہا ہے جس ميں ان كى دنيا و آخرت دونوں كا فائدہ ہے.

اور بہت سے لوگ ايسے ہيں جن پر حماقت اور قلت حكمت و علم غالب ہوتى ہے، اگر ايسے لوگوں كو ان كى حالت پر چھوڑ ديا جائے تو وہ حق سے اندھے ہو جائيں، اور شھوات ميں ڈوب جائيں، اللہ تعالى نے ايسے لوگوں كوحق كى طرف پلٹانے اور جس ميں ان كا فائدہ ہے اسے حاصل كرنے كے ليے جھاد مشروع كيا، اس ميں كوئى شك نہيں كہ حكمت كا تقاضہ يہى ہے كہ احمق اور بے وقوف شخص كو نقصان اور ضرر دينے والى چيز سے بچايا جائے، اور اسے ايسے كام پر ابھارا جائے جس ميں اس كا نفع اور فائدہ ہو.

بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا وہ كہتے ہيں:

تم بہترين امت ہو جو لوگوں كے ليے نكالى گئى ہے.

وہ كہتے ہيں: لوگوں كے ليے سب سے بہتر اور اچھے لوگ، ( يعنى لوگوں كو سب سے زيادہ فائدہ دينے والے لوگ ہو ) تم ان كى گردنوں ميں زنجريں ڈال كر لاؤ گے حتى كہ وہ اسلام ميں داخل ہو جائيں گے، تو كيا جھاد كے علاوہ بھى كسى لوگوں كو زنجيروں ميں لايا جاسكتا ہے؟ !

اس ميں اسلام كى مدح اور تعريف ہے نہ كہ قابل مذمت، لھذا ان شكست خوردہ ذہنوں كے مالك لوگوں كو چاہيے كہ ( وہ اللہ تعالى كا ڈر اختيار كريں اور اس دين كو مسخ كر كے پيش كرنے سے باز رہيں، اور يہ دليل دے كر كہ دين اسلام امن و سلامتى والا دين ہے اسے كمزور اور اس كى بنياديں كھوكھلى نہ كريں.

جى ہاں يہ امن و سلامتى كا دين ہے، ليكن اس اساس پر كہ سارى بشريت كو غير اللہ كى عبادت سے بچايا جائے، اور سارى بشريت كو اللہ تعالى كے حكم كے ماتحت اور تابع فرمان بنايا جائے، كيونكہ يہ طريقہ اور منھج تو اللہ تعالى كا ہے، نہ كہ بندوں ميں سے كسى بندے اور غلام كا قانون اور طريقہ نہيں، اور نہ ہى ايسا مذہب ہے جو كسى انسان اور مفكر كى اختراع ہو، حتى كہ اس كى دعوت دينے يہ اعلان كرنے سے شرم محسوس كرتے ہوں كہ ان كا آخرى ھدف يہ ہے كہ سارے كا سارا دين اللہ تعالى كا ہى ہو كر رہ جائے.

جب وہ مذاہب جس كے لوگ تابع ہيں وہ بشرى مذہب ہوں اور كسى بندے كى اختراع اور ايجاد ہوں اور جب قوانين اور نظام جو ان كى زندگى كو چلاتے ہوں وہ بھى كسى بندے كى اختراع اور ايجاد ہوں تو اس حالت ميں ہر مذہب اور ہر قانون اور نظام كو حق حاصل ہے كہ اپنى حدود كے اندر امن كے ساتھ قائم رہے جب تك كہ وہ كسى دوسرے كى حدود سے تجاوز نہيں كرتا، اور اس مذہب اور نظام اور مختلف حالات كو حق ہے كہ زندہ رہيں، اور كسى دوسرے كو مٹانے اور زائل كرنے كى كوشش نہ كريں.

اورجب وہاں منہج الہى اور ربانى شريعت موجود ہو اور اس كے مقابلے ميں دوسرے مذاہب جو انسانى اور بشرى اختراع ہيں پائے جائيں تو بنيادى طور پر ہى معاملہ مختلف ہو جاتا ہے، اور الہى منہج كو حق ملتا ہے كہ وہ بشرى حدود اور پردوں كو پھلانگ كر لوگوں كو بندوں كى عبادت سے باہر نكالے...

ديكھيں: فقہ الدعوۃ / سيد قطب ( 217 - 222 ) كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" اس شخص كى بنسبت جو دعوت كو سنتا اور اسے قبول كرتا ہے اسلام حجت و دليل اور بيان كے ساتھ پھيلا، اور جو شخص اسلام كى مخالفت اور اس كے ساتھ معاندانہ اور متكبرانہ رويہ اختيار كرتا ہے، اس كى بنسبت اسلام قوت و تلوار كے ساتھ پھيلا حتى كہ يہ اس كے معاملہ پر غالب آگيا، تو اس كا عناد اور دشمنى جاتى رہى اور اس نے اس واقع كى بنا پراسلام قبول كر ليا" اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 12 / 14 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب