الحمد للہ.
ہمارے سائل بھائى اللہ تعالى آپ كو توفيق سے نوازے، حاجى اور عمرہ كرنے والا شخص اللہ تعالى كا مہمان اور اس كے پاس آنے والا وفد ہے، اور اللہ سبحانہ وتعالى نے تو انہيں بلايا ہى اس ليے ہے كہ انہيں عطا فرمائے، اور اس نے انہيں يہاں طلب كيا ہى اس ليے ہے كہ ان كى عزت و تكريم كرے.
صحيح حديث ميں ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى كى راہ ميں جھاد كرنے والا غازى اور حاجى اور عمرہ كرنے والا شخص اللہ تعالى كے وفد ہيں، اللہ تعالى نے انہيں بلايا تو انہوں نے اس كى دعوت قبول كى اور انہوں نے اس سے مانگا تو اللہ تعالى نے نے عطا فرمايا "
سنن ابن ماجہ علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 1920 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور اللہ تعالى كى طرف سے ان كے ليے سب سے عظيم اور بڑا عطيہ ـ حالانكہ سب عطيات ہى عظيم ہيں ـ يہ ہے كہ وہ حج سے اس طرح واپس پلٹتے ہيں جيسا آج ہى ماں نے جنم ديا ہو، جبكہ وہ حج پر آئے تو اپنے ساتھ بہت سے گناہ ليكر آئے تھے، اور غلطيوں اور خطاؤں سے لت پت تھے، اور جب وہ ان مقدس جگہوں كو چھوڑ كر پلٹتے ہيں تو گناہوں سے بالكل صاف اور ہلكے ہو چكے ہوتے ہيں، اور جب انہوں نے اپنى سوارياں اللہ كريم و رحيم كے دروازے كے سامنے بٹھائيں تو وہ اللہ تعالى كى رحمت و خوشنودى كے ساتھ واپس پلٹتے ہيں.
صحيح حديث ميں وارد ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے اس بيت اللہ كا حج كيا اور حج ميں اس نے بيوى سے جماع نہ كيا اور نہ ہى فسق و فجور كيا تو وہ اس طرح واپس پلٹتا ہے جيسے اس كى ماں نے اسے آج ہى جنم ديا ہو "
اللہ سبحانہ وتعالى كى كيا عظيم شان و عظمت و جلال ہے! كہ اللہ تعالى نے وہ سب صحيفے لپيٹ ڈالے جو گناہوں سے بھرے پڑے تھے! بيت اللہ كى طرف اٹھنے والے مسلمان كے قدموں كى بنا پر، افسوس جس سے ايسا سفر جاتا رہے اور وہ نہ كر سكے تو كيا حاصل ہوا !
اور جس نے اسے حاصل كيا اور اس سفر پر جل نكلا تو اس نے كيا كھويا !
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" حج مبرور كا بدلہ سوائے جنت كے كچھ نہيں "
اور وہ اوقات جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے حج ميں دعاء فرمائى درج ذيل ہيں:
1 - صفا پہاڑى پر دعاء كرنا:
اس كى دليل جابر رضى اللہ تعالى عنہ كى طويل حديث ہے جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حج كا طريقہ بيان ہوا ہے، اس حديث ميں ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صفا پہاڑى سے ابتدا كي اور پہاڑى پر چڑھے حتى كہ بيت اللہ نظر آنے لگا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبلہ رخ ہو كر اللہ تعالى كى وحدانيت بيان اور اللہ اكبر كہا اور يہ كلمات كہے:
" لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير ، لا إله إلا الله وحده ، أنجز وعده ، ونصر عبده ، وهزم الأحزاب وحده "
اللہ تعالى كے علاوہ كوئى عبادت كے لائق نہيں، وہ اكيلا ہے، اس كا كوئى شريك نہيں، بادشاہى اس كى ہے، اور تعريف بھى اس كى، اور وہ ہر چيز پر قادر ہے، اللہ تعالى كے علاوہ كوئى عبادت كے لائق نہيں، وہ اكيلا ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا كر دكھايا، اور اپنے بندے كى مدد و نصرت فرمائى، اور اكيلے ہى سب لشكروں كو شكست سے دوچار كر ديا.
پھر ان كلمات كے مابين دعاء فرمائى اور ان كلمات كو تين بار دھرايا.
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).
2 - مروہ پر دعاء كرنا:
مندرجہ بالا حديث طويل حديث ميں ہے كہ:
" پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مروہ كى طرف اترے حتى كہ جب وادى ميں ان كے قدم ثابت ہوئے تو وہاں دوڑ لگائى، اور مروہ پہاڑى پر آ گئے اور مروہ بھى وہى كچھ كيا جو صفا پر كيا تھا"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).
3 - مشعر حرام كے پاس دعا كرنا:
جيسا كہ مندرجہ بالا حديث ميں ہى آيا ہے كہ:
" پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم قصواء اونٹى پر سوار ہوئے حتى كہ مشعر الحرام ( يہ مزدلفہ ميں ايك پہاڑ ہے ) كے قريب آئے اور قبلہ رخ ہو كر اللہ اكبر اور لا الہ الا اللہ كہا اور اللہ كى وحدانيت بيان كى، اور اچھى طرح روشنى ہو جانے تك وہاں كھڑے رہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).
4 - يوم عرفہ ميں دعاء كرنا:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" عرفہ والے دن كى دعاء سب سے بہترين ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 3585 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 4274 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
5 - چھوٹے اور درميانے جمرہ كو كنكرياں مارنے كے بعد دعاء كرنا:
امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح بخارى ميں سالم بن عبد اللہ سے بيان كيا ہے كہ عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما قريب والے جمرہ كو سات كنكرياں مارتےاور ہر كنكرى پر اللہ اكبر كہتے، اور پھر كھلى جگہ پر كچھ آگے ہو كر قبلہ رخ ہونےكے بعد بہت دير كھڑے ہو كر ہاتھ بلند كر كےدعاء كرتےاور پھر درميانے جمرہ كو بھى اسى طرح كنكرياں مارتے، اور بائيں جانب عليحدہ ہو كر قبلہ رخ ہونے كے بعد كھڑے ہو كر ہاتھ بلند كر كے لمبى دعا كرتے، اور پھر بڑے جمرہ كو كنكرياں مارتے جو كہ وادى ميں ہے اور وہاں نہ كھڑے ہوتے، عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہتے كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ايسا كرتے ہوئے ديكھا تھا"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1752 ).
واللہ اعلم .