الحمد للہ.
امام مہدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اولاد میں سے نیک شخصیت ہوں گے، آپ کا ظہور آخری زمانے میں ہو گا، آپ کے ذریعے اللہ تعالی لوگوں کے معاملات سنوار دے گا، ان کی وجہ سے زمین پر عدل و انصاف اسی طرح بھر پور ہو گا جیسے اس زمین پر ظلم و زیادتی کا راج تھا، آپ کا نام نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نام پر ہو گا، اور آپ کے والد کا نام بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے والد کے نام پر ہو گا، یعنی ان کا نام محمد بن عبد اللہ مہدی ، یا احمد بن عبد اللہ مہدی ہو گا، آپ کا نسب سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جا کر ملے گا، آپ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہوں گے، آپ کے ظہور پذیر ہونے کی علامت یہ ہو گی کہ آپ کا جس وقت ظہور ہو گا اس وقت زمانے کے لوگ بہت بگڑ چکے ہوں گے اور دھرتی پر ظلم و زیادتی کا راج ہو گا۔
آپ کے ظہور اور علامات کے حوالے سے ہماری ذکر کردہ اہم ترین باتوں کی دلیل احادیث مبارکہ سے ملتی ہے، جو کہ معنی کے لحاظ سے تواتر تک پہنچتی ہیں، جو کہ تفصیل کے ساتھ سوال نمبر: (1252 ) کے جواب میں بیان کی جا چکی ہیں۔
جبکہ قیامت کی نشانیوں کے ضمن میں آپ کے ظہور پذیر ہونے کی ترتیب کے حوالے سے اہل علم کا اختلاف ہے، ان کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں ان نشانیوں کی ترتیب بیان نہیں کی گئی ، تاہم کچھ احادیث کی روشنی میں اہل علم نے ترتیب اخذ کرنے کی کوشش کی ہے، جو کہ درج ذیل ہے:
1-قیامت کی چھوٹی نشانیوں کا ظہور، یہ بہت ساری نشانیاں ہیں، اور ان نشانیوں کی کوئی خاص ترتیب نہیں ہے، انہی نشانیوں میں سے کچھ یہ ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا وفات پا جانا، طاعون عمواس، فتنوں کا ظہور پذیر ہونا، امانت اٹھ جانا، علم ختم ہو جانا، جہالت عام ہونا۔ سود، زنا، آلات موسیقی اور شراب کا عام ہونا اور انہیں حلال سمجھنا، عمارتیں بناتے ہوئے مقابلے بازی کرنا، قتل عام ہوجانا، وقت قریب ہو جانا، مساجد کو خوب سجانا، شرک عام ہو جانا، بے حیائی کا عام ہونا، بخیلی اور کنجوسی زیادہ ہو جانا، کثرت سے زلزلوں کا آنا۔ زمین دھنسنے، چہروں کے بدلنے اور پتھروں کی بارش ہونے کے واقعات رونما ہونا، نیک لوگوں کا چلے جانا، مومن کے خوابوں کا سچا ثابت ہونا، سنتوں کو معمولی سمجھنا، جھوٹ عام ہو جانا، جھوٹی گواہی کا عام ہو جانا، اچانک اموات میں اضافہ ہونا، بارشیں زیادہ اور زراعت میں کمی ہونا، موت کی تمنا کرنا، رومی قوم کی بہتات ہو جانا اور ان کا لڑائیاں لڑنا وغیرہ، اس کے علاوہ بھی قیامت کی چھوٹی علامات ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ ہیں۔
2- امام مہدی کا ظہور پذیر ہونا، آپ کا ظہور دجال کے نکلنے اور سیدنا عیسی بن مریم کے نازل ہونے سے پہلے ہو گا، اس کے لیے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (عیسی بن مریم -علیہ الصلاۃ و السلام- نازل ہوں گے، تو مسلمانوں کے امیر سیدنا مہدی انہیں کہیں گے کہ: آئیں اور ہمیں نماز پڑھائیں، تو سیدنا عیسی بن مریم -علیہ الصلاۃ و السلام- کہیں گے: نہیں، تم آپس میں ہی اس کے ذمہ دار ہو۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے اس امت کی تکریم ہو گی۔) اس حدیث کو حارث بن ابو اسامہ نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ المنار المنیف: (1/147)میں کہتے ہیں: "اس حدیث کی سند جید ہے۔" ویسے اس حدیث کی بنیادیں صحیح مسلم میں ہیں تاہم وہاں پر امیر کا نام نہیں لیا گیا، وہاں صرف یہ ہے کہ: (سیدنا عیسی بن مریم صلی اللہ علیہ و سلم نازل ہوں گے، تو مسلمانوں کے امیر ان سے کہیں گے: آئیں اور ہمیں نماز پڑھائیں، تو عیسی بن مریم -علیہ الصلاۃ و السلام- کہیں گے: نہیں، یقیناً امارت کا معاملہ تمہارے درمیان ہی رہے گا، یہ اللہ تعالی کی طرف سے اس امت کی تکریم ہے۔) اس حدیث کو امام مسلم: (225) میں روایت کیا ہے، اس حدیث کے مطابق سیدنا عیسی بن مریم علیہ السلام امام مہدی کی اقتدا کریں گے، اس سے معلوم ہوا کہ امام مہدی سیدنا عیسی بن مریم علیہ السلام سے پہلے آئیں گے، پھر عیسی علیہ السلام دجال کو قتل کریں گے ، اس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ دجال امام مہدی کے زمانے میں رونما ہو گا۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (10301 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
3- دجال کا رونما ہونا، دجال کے رونما ہونے کے بارے میں تفصیلات جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: ( 171 ، 8301 ) کا مطالعہ کریں۔
4- عیسی بن مریم علیہ السلام کے نازل ہونے اور دجال کو قتل کرنے کے حوالے سے تفصیلات جاننے کے لیے سوال نمبر: (10302 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
5-یاجوج اور ماجوج کا نکلنا، اس چیز کی دلیل کہ یاجوج اور ماجوج سیدنا عیسی بن مریم علیہ السلام کے زمانے میں رونما ہوں گے ؛ سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دجال کے بارے میں حدیث سنائی ، اور اسی میں فرمایا: (ابھی وہ اسی حالت میں ہوں گے کہ اللہ تعالی سیدنا عیسی علیہ السلام کی طرف وحی فرمائے گا: میں نے اپنے ایسے بندوں کو ظہور پذیر کر دیا ہے جن کا مقابلہ کرنے کی کسی میں بھی کوئی سکت نہیں ہے، اس لیے میرے بندوں کو طور پہاڑ کی جانب لے جاؤ، تو اللہ تعالی یاجوج و ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر اونچے ٹیلے سے اترتے ہوئے نظر آئیں گے، ان کے لشکر کا اگلا حصہ بحیرہ طبریہ کے پاس سے گزرے گا تو اس کا سارا پانی پی جائیں گے، اور جب ان کے لشکر کا آخری حصہ وہاں سے گزرے گا تو کہے گا: یہاں کبھی پانی ہوا کرتا تھا۔) اس حدیث کو امام مسلم: (2937) نے روایت کیا ہے۔ مزید کے لیے سوال نمبر: (171 اور 3437) کا مطالعہ کریں۔
اس کے بعد قیامت کی نشانیاں تیزی کے ساتھ رونما ہونا شروع ہو جائیں گی، جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں کہ: (نشانیاں ایک دوسرے کے بعد اس طرح تیزی سے رونما ہوں گی جیسے لڑی میں پروئے ہوئے دانے گرتے ہیں۔) اس حدیث کو طبرانی نے معجم الاوسط میں بیان کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح الجامع میں صحیح قرار دیا ہے۔
اس کے بعد سورج مغرب سے طلوع ہو گا، دابہ کا ظہور ہو گا، زمین دھنسنے کے واقعات ہوں گے اور دیگر قیامت کی بڑی نشانیاں رونما ہونا شروع ہوں گی۔
اللہ تعالی ہمیں اسلام پر ثابت قدمی والی زندگی عطا فرمائے۔
واللہ اعلم
مزید کے لیے آپ دیکھیں: " المهدي المنتظر " از ڈاکٹر عبد العلیم بستوی: (1 / 356) اسی طرح یوسف الوابل کی کتاب: أشراط الساعة: صفحہ: 249، اور ایسے ہی سوال نمبر: (3259) کا بھی مطالعہ کریں۔