سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بیوی نے خاوند کی دوسری شادی کی حالت میں طلاق طلب کرلی

452

تاریخ اشاعت : 22-04-2004

مشاہدات : 13326

سوال

میں نے اپنی بیوی سے دوسری شادی کی رغبت ظاہرکی توہماری آپس میں بات چیت چل نکلی ، اوربیوی نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ اگر دوسری شادی کرلو تو مجھے طلاق دے دو ، الحمدللہ ہم مسلمان ہيں اورہماری شادی اسلامی تعلیمات کے مطابق انجام پائي ہے ، عقد نکاح میں میری بیوی نے یہ کوئي شرط نہیں رکھی کہ میں دوسری شادی نہیں کرسکتا ۔
توکیا میری بیوی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اسے نہ مانے اور اللہ تعالی کی حلال کردہ چيزکوحرام قرار دے ؟
میری بیوی الحمد للہ اسلامی تعلیمات کی پابند ہے ، اوروہ چاہتی ہے کہ جواب میں قرآن وسنت کے دلائل سے وضاحت کی جائے ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب کوئي شخص مالی اوربدنی طور پر دوسری شادی اورعدل کرنے کی طاقت رکھتا ہو اوراسے شادی کی رغبت بھی ہو اس کے لیے دوسری شادی کرنا مشروع ہے اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

تواور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو ، دو دو ، تین تین ، چار چار ، لیکن اگر تمہیں عدل نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے النساء ( 3 ) ۔

اورسنت میں اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اوراسی طرح صحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم کا فعل بھی موجود ہے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اورشخص کے لیے چار بیویوں سے زيادہ رکھنا جائز نہيں ۔

اوریہ معلوم ہونا چاہیے کہ عورت کی طبیعت بہت ہی غیرت والی ہے وہ یہ نہیں چاہتی کہ اس کے علاوہ کوئي اورعورت بھی اس کے خاوند میں اس کے ساتھ شرکت کرے اورخاوند کی محبت تقسیم ہوکر رہ جائے ، اورعورت کے اندر یہ غیرت پائي جانی کوئی ملامت والی چيز نہیں جس پر اسے ملامت کی جائے ، کیونکہ یہ غیرت توسب سے بہتر اور اچھی عورتوں کے اندر بھی پائي جاتی تھی جوکہ صالحہ اورصحابیات ہیں بلکہ امہات المومنین رضي اللہ تعالی عنہن میں بھی تھی ۔

لیکن یہ ضروری ہے کہ یہ غیرت اسے یہاں تک نہ لے جائے کہ وہ اللہ تعالی کی مشروع کردہ چيز پربھی اعتراض کرنے لگ جائے ، بلکہ اس کے لیے تویہ مشروع ہے کہ وہ اس سے اپنے خاوند کونہ روکے اوراس میں روڑے نہ اٹکائے ، بلکہ اسے اپنےخاوند یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ دوسری شادی کرلے ۔

کیونکہ یہ تو اس کا نیکی اوربھلائي کے کام میں تعاون ہوگا اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورنیکی اوربھلائي کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرتےرہو

اورصحیح بخاری اورصحیح مسلم کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جوکوئي بھی اپنے مسلمان بھائي کی ضرورت پوری کرتا ہے اللہ تعالی اس کی ضروریات پوری کرتا ) ۔

اوردوسری شادی کرنے میں پہلی بیوی کی رضامندی کی کوئي شرط نہيں ، مستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ للافتاء ) سے اس کے بارہ میں سوال کیا گيا تواس کا جواب تھا :

خاونداگردوسری شادی کرنا چاہے تواس پر کوئي ضروری نہیں کہ وہ پہلی بیوی کوراضی کرے ، لیکن یہ اخلاقی طورپر ہونا چاہیے اورحسن معاشرت بھی ہے کہ پہلی بیوی کا خیال رکھے جس سے اس کی تکلیف کم ہو کیونکہ یہ عورتوں کی طبیعت میں شامل ہے کہ اس طرح کہ معاملات میں وہ بہت زيادہ تکلیف محسوس کرتی ہیں ۔

تواسے اچھی اوربہتر ملاقات اورملتے وقت کھلکھلاتے چہرے اورکوئي اچھی اوربہتر بات کرکے کم کرنا چاہیے اوراسے راضی کرنے کےلیے کچھ مال کی ضرورت پیش آئے تووہ بھی دینا چاہیے ۔ ا ھـ ۔

اگرخاوند دوسری شادی کرنا چاہے توپہلی بیوی طلاق کا مطالبہ کرنا شروع کردے یہ تو غلط ہے ، لیکن وہ حالات کودیکھے اوراگر دوسری بیوی کے ہوتے ہوئے وہ زندگی نہیں گزار سکتی تو وہ خلع حاصل کرلے ، اوراگر وہ خاوند کے ساتھ رہ سکتی ہے لیکن کچھ نہ کچھ اسے تکلیف اورتنگی بھی آئے گی توپھر اس پرواجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس پر صبر کرے ۔

ثوبان رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا :

( جو عورت بھی اپنے خاوند سے بغیر کسی سبب کے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے ) ابوداود وغیرہ نے اسے روایت کیا ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

اوراگروہ صبر کرے تواللہ تعالی بھی اس کی مدد فرمائے گا اوراس کا شرح صدر کرنے کے بعد اسے نعم البدل عطا فرمائے گا ، اورخاوند پر بھی ضروری ہے کہ وہ اس کی حسن معاشرت کےساتھ تعاون کرے ، اوراس سے معاملات بھی اچھے طریقے سے نبھائے ، اوراس کے ساتھ صبر میں شریک ہو اوراگر اس سے کچھ کمی و کوتاہی سرزد ہوجائے تواس پر صبر کرتاہوا اسے معاف کردے ۔

اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔ .

ماخذ: الشیخ عبداللہ الحیدری