جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

حجراسود کے بارہ میں سوالات

سوال

یں نے حجراسود کے موضوع پرایک مقالہ پڑھا ، میں کچھ احادیث اورروایات کی صحت کے بارہ میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آيا ان پرعمل ہوسکتا ہے یا کہ یہ روایات موضوع ہیں ، اللہ تعالی آپ کوجزائے خیرعطا فرمائے ذیل میں میں وہ مقالہ ذکر کرتا ہوں ؟ : " آپ تصدیق کریں یا نہ کريں "
جی ہاں ، روئے زمین پرصرف ایک ایسا پتھر ہے جوپانی کے اوپرآجاتا ہے اورنیچے تہ میں نہیں رہتا ، وہ پتھر حجر اسود ہے جومکہ مکرمہ میں کعبہ شریف کے جنوب مشرقی کنارے میں موجود ہے ۔
جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
کہا جاتا ہے کہ جب المطیع للہ نے ابوطاھر قرمطی سے حجراسود خریدا توعبداللہ بن عکیم المحدث آئے اورکہنے لگے :
ہمارے اس پتھرمیں ہماری دونشانیاں ہیں : یہ پانی کے اوپر رہتا ہے اورتہ میں نہيں بیٹھتا ، اورآگ سے گرم نہيں ہوتا ، توایک پتھرکوخوشبوسے لت پت اورریشمی کپڑے میں لپیٹ کرلایا گيا تاکہ یہ مغالطہ ڈالا جاسکے یہ ہی وہ پتھر ہے ، لھذا جب اسے پانی میں ڈالا گيا تووہ ڈوب گيا ، اورجب اسے آگ میں رکھا گيا تووہ پھٹنے کے قریب ہوگیا ۔ پھر ایک اورپتھرلايا گيا تواس کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا گياتھا جوپہلے پتھر سے کیا گيا تھا اوراس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جوپہلے پتھر کےساتھ ہوا تھا ، پھر حجراسود لایا گيا اوراسے پانی میں ڈالا گيا تووہ اوپرتیرنے لگا ، اورآگ میں رکھا گيا توگرم نہ ہوا ۔
توعبداللہ کہنے لگے ہمارا پتھر یہ ہے ، تواس وقت ابوطاھر قرمطی نے بہت تعجب کیا اوروہ کہنے لگا تمہیں یہ دلائل کہاں سے ملے ؟ توعبداللہ کہنے لگے :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہے کہ زمین میں حجراسود اللہ تعالی کا دایاں ہے ، روزقیامت آئے گا تواس کی ایک زبان ہوگي جس نے بھی اسے حق یا باطل کے ساتھ چوما اس کی گواہی دے گا ، پانی نہيں ڈوبتااورنہ ہی آگ سے گرم ہوتا ہے ۔۔۔"
اورحجراسود وہ ہے جوکعبہ کے جنوب مشرقی کنارے میں ہے اوریہيں سے طواف کی ابتداء ہوتی ہے ، یہ اصل میں جنت کے یاقوتوں میں سے ہے ، اس کا رنگ مقام ( ابراھیم ) کی طرح سفید شفاف تھا ، اوریہ آنسوبہانے اوردعا کے قبول ہونے کی جگہ ہے ، اسے چھونا اوراس کا بوسہ لینا مسنون ہے ، اورزمین میں یہ اللہ تعالی کا دایاں ہاتھ ہے یعنی اللہ تعالی ساتھ توبہ کا عھد کرتے ہوئے مصافحہ کامقام ہے ، جس نے بھی اسے چھویا روزقیامت اس کی گواہی دے گا ، اورجواس کے برابرہوتا ہے وہ رحمن کے ہاتھ سے معاھدہ کررہا ہے ، اوراسے چھونے سے گناہ معاف ہوتے ہیں ، یہ انبیاء ، صالحین ، اورحجاج اورعمرہ اورزيارت کرنے والوں کے لبوں کے ملنے کی جگہ ہے ، فسبحان اللہ العظیم ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول :

حجراسود : وہ ہے جوکعبہ کے جنوب مشرقی کنارے میں باہرکی جانب منصوب ہے اوراس کے ارد گرد چاندی سے گھیرا ہوا ہے ، اورطواف کے ابتدا کرنے کی جگہ ہے اوریہ پتھر زمین سے ڈیڑھ میٹر بلند ہے ۔

اورسوال میں جومقالہ ذکر کیا گيا ہے اس میں کچھ توحق ہے اوراس کے صحیح دلائل ملتے ہيں ، اورکچھ ایسی روایات بھی ہیں جن کی کوئي اصل نہيں ملتی ۔

ہم نے سوال نمبر ( 1902 ) کےجواب میں حجراسود کے بارہ میں سنت صحیحہ میں وارد شدہ اکثر دلائل ذکر کیے ہیں جن میں یہ بھی شامل ہے کہ :

اللہ تعالی نے حجراسود جنت سے اتارا تویہ دودھ سے بھی سفید تھا اور اولاد آدم کی خطاؤں اورگناہوں نے اسے سیاہ کردیا ہے ، اورروزقیامت حجراسود آئے گاتواس کی دو آنکھیں ہونگی ان سے دیکھے گا اور زبان ہوگي جس سے بولے گا اورجس نے بھی اسے حق کے ساتھ استلام کیا اس کی گواہی دے گا ، اوراسے چھونا یا اس کا بوسہ لینا یا اس کی طرف اشارہ کرنے سے طواف کی ابتداء ہوتی ہے چاہے وہ طواف حج کا ہویا عمرہ کا یا نفلی ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حجراسود کابوسہ لیا تھا اوران کی اتباع میں امت محمدیہ بھی اس کا بوسہ لیتی ہے ، اگربوسہ نہ لیا جاسکے تواسے ہاتھ یا کسی چيز سے چھوکراسے چوما جائے ، اوراگراس سے بھی عاجز ہوتواپنے ہاتھ سے اشارہ کرے اوراللہ اکبر کہے ، اورحجر اسود کوچھونے سے غلطیاں ختم ہوتی ہیں

دوم :

اورقرامطیوں کاحجراسود چوری کرنا اوراسے ایک لمبی مدت تک اپنے پاس رکھنا صحیح ہے اورتاریخی طورپراس کا ثبوت ملتا ہے ۔

حافظ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی 278 ھجری کے واقعات میں لکھتے ہيں :

اوراس برس میں قرامطی حرکت میں آئے ، اوریہ فرقہ ملاحدہ اورزندیقوں میں سے ہے اورفرس میں سے فلسفیوں کا پیروکار ہے جوزردشت اورمزدک کی نبوت کا اعتقاد رکھتے ہيں ، اوریہ دونوں حرام اشیاء کومباح قرار دیتے تھے ۔

پھر وہ ہرباطل کی طرف بلانے والے کے پیروکارہيں ، اوران میں اکثر رافضیوں کی جانب سے اس طرف آتے ہیں اوروہی باطل میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ لوگوں میں یہی لوگ سب سے کم عقل ہیں اورانہيں اسماعیلی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اسماعیل الاعرج بن جعفرالصادق کی طرف منسوب ہوتے ہيں ۔

اورانہيں قرامطہ کہا جاتا ہے : کہا جاتا ہے کہ قرمط بن اشعث البقار کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے قرامطہ کہا جاتا ہے ، اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا قائد اپنے پیروکاروں کوسب سے پہلے جس چيزکا حکم دیتا تھا وہ یہ تھا کہ وہ ایک دن اوررات میں پچاس نمازيں ادا کرے اوراس میں اس کا مقصد یہ تھا انہيں مشغول رکھے اورخود چالیں چلتا رہے ۔۔۔

مقصد یہ ہے کہ یہ فرقہ اورگروہ اس سال حرکت میں آیا ، اورپھر ان کا معاملہ بڑھتا ہی چلا گیا اورحالات بھی ان کے موافق ہوگئے – جیسا کہ ہم بیان بھی کریں گے – حتی کہ حالات ان کے موافق ہوگئے اوریہ مسجدحرام میں داخل ہوئے اورحجاج کرام کومسجد کے اندر کعبہ کے ارد گرد قتل کیا اورحجر اسود کوتوڑا اوراکھاڑ کے317 ھجری میں اپنے ساتھ اپنے ملک لے گئے ، اوریہ پتھر339 ھجری تک ان کے پاس ہی رہا اوربیت اللہ میں اپنی جگہ سے بائيس برس تک غائب رہا ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

دیکھیں : البدايۃ والنھايۃ ( 11 / 72 - 73 ) ۔

سوم :

اورجویہ ذکر کیا گيا ہے کہ حجراسود آنسوبہانے کی جگہ ہے ، اس کے بارہ میں ایک حدیث ابن ماجہ میں مروی ہے لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ، ہم اسے ذیل میں ذکر کرتےہيں :

ابن عمررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کی جانب رخ کیا اوراپنے ہونٹ مبارک حجراسود پررکھے اوربہت دیرتک روتے رہے ، پھر وہ پیچھے متوجہ ہوئے تودیکھا کہ عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ رو رہے ہيں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

( اے عمر ( رضي اللہ تعالی عنہ ) یہاں پرآنسوبہائے جاتے ہیں ) دیکھیں ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2945 ) ۔

لیکن یہ حدیث ضعیف ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل میں اسے بہت ہی زيادہ ضعیف قرار دیا ہے ۔ اھـ دیکھیں : ارواء الغلیل حدیث نمبر ( 1111 ) ۔

اوردوسری حدیث : زمین میں حجراسود اللہ تعالی کا دایاں ہاتھ ہے " کے بارہ میں جواب یہ ہے کہ یہ حدیث باطل ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہيں ۔

ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی نے العلل المتناھیۃ میں کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہيں ۔

دیکھیں : العلل المتناھیۃ لابن الجوزی ( 2 / 575 ) اورتلخیص العلل للذھبی صفحہ نمبر ( 191 ) ۔

اورابن العربی کہتے ہيں :

یہ حدیث باطل ہے اس کی طرف التفات بھی نہيں کیا جاسکتا ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی سند کے ساتھ روایت کی گئي ہے جو ثابت ہی نہيں ہوتی ، تواس بنا پراس کے معنی میں غوروخوض کرنے کی کوئي ضرورت ہی نہيں رہتی ۔

دیکھیں : مجموع الفتاوی الکبری ( 6 / 397 ) ۔

اورآپ نے حجر اسود کے بارہ میں جویہ وصف ذکر کیا ہے کہ یہ آنسو بہانے کی جگہ ہے ، اس کے بارہ میں ابن ماجہ میں ایک حدیث وارد ہے لیکن وہ صحیح نہيں بلکہ ضعیف ہے جیسا کہ اوپربیان بھی ہوچکا ہے ۔

چہارم :

اورمقالہ میں جویہ ذکرکیا گيا ہے کہ حجراسود پانی پرتیرتا ہے اورآگ سے گرم نہيں ہوتا ، اوردعا قبول ہوتی ہے ، یہ بھی ایسی اشیاء میں شامل ہے جس کا سنت نبویہ میں ثبوت نہیں ملتا اوراس کی کوئي اصل نہيں ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات