اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

غسل جنابت فرض ہونے كا علم نہيں تھا كيا اسے پہلى نمازوں كى قضاء كرنا ہو گى ؟

45648

تاریخ اشاعت : 01-09-2006

مشاہدات : 12778

سوال

مجھے نماز كى ادائيگى كے ليے غسل جنابت كى فرضيت كا علم نہيں تھا، كيا ميں نمازوں دوبارہ ادا كروں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہر مسلمان مرد و عورت پر شرعى احكام كى تعليم حاصل كرنا فرض ہے، اور خاص كر ان عبادات و احكام كى تعليم ضرورى ہے جن كا اللہ تعالى نے انہيں مكلف بنايا ہے، اور وہ انہيں ادا كرنے كى استطاعت ركھتا ہے.

چنانچہ جس شخص كے پاس مال و دولت ہے اس كے ليے زكاۃ كے احكام جاننا واجب ہيں، اور جو شخص تجارت كرتا ہے اس كے ليے خريد و فروخت كے احكام كى تعليم حاصل كرنا ضرورى ہے، اور سب كو صحيح اعتقاد اور جس چيز كا اسے مكلف كيا گيا ہے اس كى ادائيگى كے احكام سيكھنے لازم ہے.

اور اسى طرح طہارت و پاكيزگى اور نماز كے احكام تو ہر شخص كو جاننے چاہيں، اور پھر آج كے دور ميں تو اللہ تعالى نے طلب علم بہت آسان كر ديا ہے كسى شخص كے ليے علم حاصل نہ كرنے كى كوئى دليل اور حجت اور عذر باقى نہيں رہتا، صرف سستى اور كاہلى اور كوتاہى كى بنا پر علم حاصل نہيں كيا جاتا.

اور خاص كر اس معين مسئلہ: غسل جنابت كے فرض ہونے كا علم نہيں تھا، اور آپ اسى حالت ميں نمازيں ادا كرتے رہے:

اس ميں اہل علم كا كہنا ہے كہ: يہ عذر شمار ہو گا، چنانچہ آپ پر اس كى قضاء نہيں، ليكن آپ كو غسل كرنا ہو گا، اور جس نماز كے وقت ميں آپ كو غسل جنابت كے حكم كا علم ہوا وہ نماز دوبارہ ادا كرنا ہو گى، اس ميں انہوں نے درج ذيل دلائل سے استدلال كيا ہے:

1 - ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسجد ميں تشريف لائے تو ايك اور شخص بھى مسجد ميں آيا اور آكر سلام كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سلام كا جواب ديا اور فرمانے لگے:

جاؤ جا كر نماز پڑھو كيونكہ تو نے نماز ادا نہيں كى.

چنانچہ وہ شخص گيا اور جا كر اسى طرح نماز ادا كى جس طرح پہلے ادا كى تھى پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آكر سلام كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سلام كا جواب ديا اور فرمانے لگے:

جاؤ جا كر نماز ادا كرو تم نے نماز ادا نہيں كى، ايسا تين بار ہوا تو وہ كہنے لگا: اس ذات كى قسم جس نے آپ كو حق ديكر مبعوث كيا ہے اس سے بہتر تو ميں نہيں جانتا، چنانچہ آپ مجھے تعليم ديں.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم نماز كے ليے كھڑے ہوؤ تو تكبير كہو اور پھر قرآن ميں سے جو آسانى كے ساتھ پڑھ سكو پڑھو اور پھر ركوع كرو حتى كہ ركوع ميں تم اطمنان كر لو، پھر ركوع سے سر اٹھاؤ حتى كہ اچھى طرح سيدھے كھڑے ہو جاؤ پھر سجدہ كرو حتى كہ سجدہ ميں تمہيں اطمنان ہو جائے، اور پھر سجدے سے اٹھو حتى كہ اطمنان كے ساتھ بيٹھ جاؤ ، اپنى سارى نماز ميں ايسا ہى كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 724 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 367 ).

چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے پہلى سب نمازوں كى قضاء كا حكم نہيں ديا، بلكہ صرف اس وقت كى حاضر نماز قضاء كرنے كا حكم ديا.

2 - عبد الرحمن بن ابزى رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ ايك شخص عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس آ كر كہنے لگا:

ميں جنبى ہو گيا اور مجھے پانى نہيں ملا تو عمار بن ياسر عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو كہنے لگے:

كيا آپ كو ياد نہيں ميں اور آپ ايك سفر ميں تھے، آپ نے تو نماز ادا نہيں كى، ليكن ميں نے مٹى ميں الٹ پلٹ ہونے كے بعد نماز ادا كر لى، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے بيان كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تجھے صرف اس طرح ہى كافى تھا، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى دونوں ہتھيليوں كو زمين پر مارا اور ان ميں پھونك مارى اور پھر دونوں ہاتھوں كو چہرے اور ہتھيليوں پر پھير ليا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 331 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 368 ).

چنانچہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے پانى نہ ملنے كى صورت ميں تيمم كے وجوب كا علم نہ ہونے كى بنا پر نماز ادا نہ كى، اور عمار رضى اللہ تعالى نے تيمم كا صحيح طريقہ معلوم نہ ہونے كى بنا پر تيمم كے طريقہ كى مخالفت كى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دونوں كو نماز قضاء كرنے كا حكم نہيں ديا.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

.... اور اس بنا پر اگر نص نہ پہنچنے كى بنا پر كوئى شخص طہارت ترك كر دے، مثلا اونٹ كا گوشت كھايا اور وضوء نہ كيا، اور پھر اسے نص كا علم ہو جائے اور اسے يہ واضح ہو جائے كہ وضوء كرنا واجب ہے، يا كوئى شخص اونٹوں كے باڑہ ميں نماز ادا كر لے اور پھر اسے اس كے بارہ ميں نص كا علم ہو: تو كيا اسے پچھلى نماز لوٹانا ہو گى ؟

اس ميں دو قول ہيں، اور يہ دونوں امام احمد كى روايتيں ہيں.

اور اس كى نظير يہ كہ: كوئى شخص اپنے عضو تناسل كو چھوئے اور نماز ادا كر لے، پھر اسے عضو تناسل چھونے سے وضوء واجب ہونے كا علم ہو.

ان سب مسائل ميں صحيح يہ ہے كہ: نماز كا اعادہ نہيں ہو گا؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے خطا اور بھول معاف كردى ہے، اور اس ليے بھى كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

ہم اس وقت تك عذاب نہيں ديتے جب تك رسول مبعوث نہ كر ديں .

اس ليے جسے كسى معين چيز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم نہ پہنچے تو اس پر اس كے وجوب كا حكم ثابت نہيں ہوگا، اور اسى ليے جب عمر اور عمار رضى اللہ تعالى عنہما كو جنابت كى حالت پيش آئى تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے نماز ہى ادا نہ كى اور عمار رضى اللہ تعالى عنہ نے مٹى ميں لوٹ پوٹ ہو كر نماز ادا كر لى، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان دونوں كو نماز لوٹانے كا حكم نہيں ديا.

اور اسى طرح جب ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ كئى كئى روز جنابت كى حالت ميں نماز ادا نہيں كرتے تھے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں نماز لوٹانے كا حكم نہيں ديا.

اور جب ايك صحابى نے سياہ رسى ميں سے سفيد رسى واضح ہونے تك سحرى كھائى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں روزہ كى قضاء كرنے كا حكم نہيں ديا.

اور اسى طرح بيت المقدس كى طرف چہرہ كر كے نماز ادا كرنے كا حكم منسوخ ہونے كا علم نہ ہونے والے صحابہ كرام كو اپنى نمازيں لوٹانے كا حكم نہيں ديا.

اس ميں مستحاضہ عورت بھى شامل ہے كہ جب اس نے اس اعتقاد پر كئى روز تك نماز ادا نہ كى كہ استحاضہ بھى حيض ہے اور اس پر نماز فرض نہيں، چنانچہ اس كى قضاء ميں دو قول ہيں:

پہلا قول يہ ہے كہ وہ نماز نہيں لوٹائے گى ـ جيسا ك امام مالك وغيرہ سے منقول ہے ـ ؛ كيونكہ ايك استحاضہ والى عورت نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو كہا تھا:

" مجھے بہت زيادہ اور سخت اور عجيب حيض آتا ہے جس نے مجھے نماز اور روزہ سے روك ركھا ہے "

چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے مستقبل ميں اس پر جو كچھ واجب ہوتا ہے اس كا حكم ديا، اور اسے پچھلى نمازوں وغيرہ كى قضاء كا حكم نہيں ديا تھا.

اور ميرے نزديك يہ بھى ثابت ہوا اور نقل كيا گيا ہے كہ: ديہات اور خانہ بدوش مرد و عورت ميں ايسے بھى ہيں جو بالغ ہو چكے ہيں اور انہيں نماز فرض ہونے كا بھى علم نہيں.

بلكہ جب عورت كو كہا جاتا ہے كہ نماز پڑھا كرو، تو وہ جواب ديتى ہے ميں بڑى اور بوڑھى ہو كر نماز ادا كر ليا كرونگى! اس كا يہ گمان ہوتا ہے كہ نماز تو بڑھاپے ميں فرض ہوتى ہے.

اور صوفيوں اور پيروں كے مريدوں ميں بھى بہت سے گروہ اور افراد ہيں جنہيں يہ بھى علم نہيں كہ ان پر نماز فرض ہے، چنانچہ اس قسم كے لوگوں پر صحيح يہى ہے كہ پچھلى نمازوں كى قضاء نہيں، چاہے يہ كہا جائے: وہ كافر تھے يا جہالت كى بنا پر معذور تھے .... "

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 21 / 101 - 102 ).

مزيد تفصيل كے آپ سوال نمبر ( 21806 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اور يہاں يہ كہنا بھى ممكن ہے كہ:

اگر سائل ايسى جگہ ہے جہاں تعليم كے اسباب متوفر ہيں اور اس نے كوتاہى كرتے ہوئے تعليم حاصل نہيں تو اسے جنابت كى حالت ميں بغير غسل كيے ہوئے ادا كردہ نمازيں لوٹانا ہونگى، اگر وہ اتنى زيادہ نہ ہوں، ليكن اگر بہت زيادہ ہيں تو پھر حرج اور مشقت كى بنا پر ساقط ہو جائينگى.

كيونكہ اللہ تعالى كا ارشاد ہے:

اور اللہ تعالى نے تم پر دين ميں كوئى تنگى اور حرج نہيں ركھا الحج ( 78 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب