الحمد للہ.
اول:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے درج ذیل خواتین کے ساتھ شادی کی تھی:
1-خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا
آپ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سب سے پہلی اہلیہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب آپ سے شادی کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر اس وقت 25 سال تھی اور آپ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی اور شادی نہیں کی، نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ابراہیم رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام اولاد انہی سے تھی۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں باب قائم کیا ہے کہ: "باب ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی اور ان کی فضیلت کے بیان میں" اس باب کے تحت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ذکر کی جس میں وہ کہتی ہیں کہ: (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی کے معاملہ میں ، میں نے اتنی غیرت نہیں محسوس کی جنتی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں محسوس کرتی تھی ، وہ میرے نکاح سے پہلے ہی وفات پاچکی تھیں ؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے میں ان کا تذکرہ بہت زیادہ سنتی تھی) بخاری: (3815)
2- سیدہ سودہ بنت زمعہ بن قیس رضی اللہ عنہا
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے نبوت کے دسویں سال شادی کی تھی۔
یہ بات طبقات ابن سعد میں واقدی کی سند سے (8/52-53 ) اور "البداية والنهاية " میں (3/149) ابن کثیر نے بیان کی ہے۔
3- سیدہ عائشہ بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہما
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ان کے ساتھ نکاح نبوت کے دسویں سال ہوا، طبقات ابن سعد: (8/58-59) ۔ نیز سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا خود کا بیان ہے کہ: "میرے ساتھ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا نکاح اس وقت ہوا جب میری عمر 6 سال تھی، اور جب رخصتی ہوئی تو میری عمر 9 سال تھی۔" اس حدیث کو امام بخاری: (3894) اور مسلم : (1422) نے روایت کیا ہے۔ نیز صحیح بخاری: (5077) ہی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے علاوہ کسی اور کنواری خاتون سے شادی نہیں کی۔
4- حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہ جس وقت حفصہ بنت عمر کے خاوند خنیس بن حذافہ سہمی فوت ہو گئے ، آپ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں شامل تھے اور بدری صحابی تھے، آپ کی وفات مدینہ میں ہوئی تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں عثمان سے ملا اور انہیں اپنی بیٹی حفصہ کا رشتہ پیش کیا اور کہا: اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا نکاح اپنی بیٹی حفصہ سے کر دیتا ہوں، اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں دیکھ کر بتلاتا ہوں۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں کچھ دن انتظار میں رہا، پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ: میرے لیے آج واضح ہو گیا ہے کہ میں شادی نہیں کروں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ملا اور انہیں اپنی بیٹی حفصہ کا رشتہ پیش کیا اور کہا: اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا نکاح اپنی بیٹی حفصہ سے کر دیتا ہوں، اس پر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بالکل چپ سادھ لی اور کوئی جواب نہیں دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اس سرد مہری والے رویے پر عثمان سے کہیں زیادہ دکھ ہوا، ان کا یہ طریقہ عمل عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ میرے لیے باعث تکلیف تھا۔ پھر کچھ دن مزید انتظار کیا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود حفصہ رضی اللہ عنہا کے لیے شادی کا پیغام بھیجا اور میں نے ان کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کر دیا ۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ملاقات مجھ سے ہوئی تو انہوں نے کہا : شاید آپ کو میرے اس دن کے طرز عمل سے تکلیف ہوئی ہو گی کہ جب آپ کی مجھ سے ملاقات ہوئی اور آپ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کے متعلق مجھ سے بات کی تو میں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ میں نے کہا: ہاں تکلیف ہوئی تھی ۔ انہوں نے بتایا کہ آپ کی بات کا میں نے صرف اس لیے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ میرے علم میں یہ بات آئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حفصہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ کیا ہے، تو میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا راز فاش نہیں کر سکتا تھا ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دیتے تو بے شک میں ان سے نکاح کر لیتا ۔
صحیح بخاری: (4005)
5- زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ان سے شادی ہجرت کے بعد 31 ویں مہینے رمضان میں ہوئی تھی ۔ طبقات ابن سعد 8/115
6- ام سلمہ بنت ابو امیہ رضی اللہ عنہا
صحیح مسلم: (918) میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا :(جو بندہ بھی مصیبت پہنچنے پر کہے: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي ، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا [یعنی: بےشک ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اے اللہ! مجھے میری مصیبت کا اجر دے اور مجھے اس کا بہتر بدل عطا فرما۔] تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی مصیبت کا اجر دیتا ہے اور اسے اس کا بہتر بدل عطا فرماتا ہے۔" سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: تو جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے، میں نے اسی طرح کہا جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے حکم دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صورت میں ان سے بہتر بدل عطا فرما دیا۔
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ: ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو میں نے(دل میں یہ دعا پڑھنے سے پہلے ) سوچا :رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابی ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے بہتر کون ہو سکتا ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمت عطا کی تو میں نے دعا کے یہ الفاظ کہے، تو اس کے بعد میری رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے شادی ہو گئی۔
7- جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا
آپ رضی اللہ عنہا غزوہ بنی مصطلق کی قیدیوں میں قید ہوئیں تھی، آپ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں اور اپنی آزادی کے لیے مکاتبت کے سلسلے میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے تعاون چاہا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں مکاتبت کی ساری رقم ادا کرنے کی پیشکش کی اور ان سے نکاح کی خواہش ظاہر کی تو آپ رضی اللہ عنہا نے دونوں چیزیں قبول کر لیں۔ پھر نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے نکاح کر لیا اور ان کی آزادی ہی ان کا حق مہر ٹھہری، پھر جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ بنی مصطلق کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سسرالی رشتہ دار بن گئے ہیں تو سب نے اپنے اپنے حصے میں آنے والے قیدیوں کو احتراما آزاد کر دیا۔ چنانچہ آپ سے بڑھ کر کوئی خاتون اپنی قوم کے لیے اتنی برکت کی باعث نہ بن سکی۔
اس واقعہ کو ابن اسحاق نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ سيرة ابن هشام 3/408-409
8- سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا
آپ ہی کے بارے میں اللہ تعالی کا یہ فرمان نازل ہوا تھا: فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ترجمہ: پھر جب زید اس عورت [زینب بنت جحش] سے اپنی حاجت پوری کر چکا تو ہم نے آپ سے اس (عورت) کا نکاح کر دیا، تاکہ مومنوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں۔ [الاحزاب: 37]
اسی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دیگر تمام ازواج مطہرات کے سامنے اظہار فخر کیا کرتی تھیں کہ : (تمہاری شادی تمہارے گھر والوں نے کی ہے، اور میری شادی اللہ تعالی نے ساتوں آسمانوں کے اوپر سے کی۔) بخاری: (7420)
9- ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ عنہما
سنن ابو داود: (2107) میں سیدنا عروہ ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے بارے میں بتلاتی ہیں کہ : آپ پہلے عبید اللہ بن حجش کی زوجیت میں تھیں اور وہ حبشہ میں فوت ہو گئے تھے، تو نجاشی نے ان کی شادی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کر دی اور اپنی طرف سے ان کو چار ہزار ( درہم ) مہر بھی ادا کیا ۔ پھر انہیں شرجیل بن حسنہ رضی اللہ کی معیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بھیج دیا ۔
اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
10- میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے میمونہ سے شادی احرام کی حالت میں کی تھی۔ اس حدیث کو امام بخاری: (1837) اور مسلم : (1410) نے روایت کیا ہے۔
احرام کی حالت میں شادی کا تذکرہ راوی کا وہم ہے، صحیح یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدہ میمونہ سے شادی عمرۃ القضا کا احرام کھولنے کے بعد کی تھی۔
مزید کے لیے دیکھیں: "زاد المعاد" (1/113) ، "فتح الباری" حدیث نمبر: (5114)
11- صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے شادی غزوہ خیبر کے بعد انہیں آزاد فرما کر کی تھی۔ بخاری: (371)
مندرجہ بالا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ ازواج مطہرات ہیں جن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خلوت اختیار کی تھی، ان میں سے دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں فوت ہو گئیں یعنی سیدہ خدیجہ اور زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما، جبکہ بقیہ 9 ازواج مطہرات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے وقت زندہ تھیں اس بات پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔
مزید کے لیے دیکھیں: "زاد المعاد" (1/105-114)
طبقات ابن سعد (8/130) میں واقدی کی سند ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات میں بنو نضیر یا بنو قریظہ کی ریحانہ بنت عمرو بھی شامل ہیں، آپ غزوہ بنی قریظہ کی قیدیوں میں شامل تھیں، تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اپنے لیے منتخب کر لیا اور انہیں آزاد کر کے ان سے شادی کی، پھر انہیں ایک طلاق بھی ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوبارہ رجوع کر لیا۔
ان کے بارے میں دوسرا موقف یہ ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی لونڈی تھیں، اور آپ نے ان کے ساتھ تعلقات بطور لونڈی قائم رکھے تھے، اس موقف کو ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں راجح قرار دیا ہے۔