الحمد للہ.
سلف اور بعد ميں آنے والے سب علماء كرام كا اتفاق ہے كہ سونے اور چاندى وغيرہ اموال كى زكاۃ ہر سال ہوتى ہے.
ابن حزم رحمہ اللہ تعالى مراتب اجماع ميں كہتے ہيں:
" اور وہ اس پر متفق ہيں كہ ہر مال پر سال ہو جانے پر زكاۃ واجب ہوتى ہے، صرف پھلوں اور كھيتى ميں نہيں، كيونكہ اس ميں صرف ايك بار زكاۃ واجب ہوتى ہے"
ديكھيں: صفحہ نمبر ( 38 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى نے نقد مراتب اجماع ميں اس كا كوئى تعاقب نہيں كيا.
اور اس اجماع كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے لے كر آج تك اس پر عمل ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عمال اور زكاۃ جمع كرنے والوں كو قبائل اور علاقوں ميں زكاۃ اكٹھى كرنے كے ليے روانہ كيا كرتے تھے اور وہ اس مال ميں جس كى زكاۃ پچھلے برس ادا كى جاچكى ہو اور جس كى ادا نہ كى گئى ہو ميں كوئى فرق نہيں كرتے تھے، بلكہ وہ لوگوں كے پاس زكاۃ كا جو مال موجود ہوتا اس كى زكاۃ ليتے تھے.
ابن سيرين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" زكاۃ اكٹھى كرنے والا آتا اور جہاں ديكھتا كہ فصل كھڑى ہے، اور يا اونٹ يا بكرياں ہيں ان سے زكاۃ وصول كر ليتا "
ديكھيں: المدونۃ ( 1 / 361 ).
اور اس شخص نے جو يہ بات كہى ہے كہ زكاۃ ہر سال نہيں ہوتى يہ اس كى جہالت پر دلالت كرتى ہے، اسے تعليم دينى اور بتانا واجب ہے، اور ضرورى ہے كہ اسے صحيح اور سيدھى راہ كى راہنمائى كى جائے.
اور مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ فتوى بازى ميں جلدى نہ كرے، اور جو اس كے سامنے ظاہر ہو اس بنا پر فتوى جارى كر دے، بلكہ اسے علماء كرام كے اقوال اور تحقيق كى طرف رجوع كرنا چاہيے، تا كہ وہ اجماع كى جگہيں معلوم كر لے اور شذوذ اختيار نہ كرے.
واللہ اعلم .