جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

حد كے بغير توبہ كى قبوليت

47834

تاریخ اشاعت : 15-01-2009

مشاہدات : 9799

سوال

ميرا ايك سوال ہے جو مجھے پريشان كيے ہوئے ہے، اور ميں اس كے متعلق سوچتا رہتا ہوں:
جب كوئى شادى شدہ يا غير شادى شدہ شخص فحش كام اور كبيرہ گناہ چورى اور غيبت اور سود وغيرہ كا مرتكب ہو، اور بہت عرصہ اس كا مرتكب رہا ہو، پھر اس نے اللہ تعالى كو جان ليا اور خالص اللہ كى رضا كى ليے سچى توبہ كر لى، اور جن لوگوں كى غيبت كى تھى ان سے معافى بھى طلب كى، اور چورى كا مال واپس كر ديا، اور سود كے مال سے بھى خلاصى اور چھٹكارا حاصل كر ليا، اور زنا و شراب نوشى، اور نمازوں ميں كوتاہى جيسے كام اس كے اور اللہ كے مابين تھے ان سے بھى توبہ كر لى، اور دوبارہ ان كا ارتكاب نہ كيا، ليكن اس شخص كو حد نہ لگے تو كيا اللہ تعالى اس كى توبہ قبول كر لےگا ؟
اور كيا اس كى ادا كردہ عبادت قبول ہو گى، چاہے گناہ كتنے بھى زيادہ ہوں، يا اللہ تعالى اس كى توبہ قبول نہيں كريگا، اور اس كى عبادت رد كر ديگا ؟
اور كيا اللہ تعالى اسے عذاب قبر سے نجات دے ديگا، اور آگ ميں داخل نہيں كريگا ؟
اور اسے اللہ تعالى كو راضى كرنے اور عذاب سے بچنے كے ليے كونسے عمل كرنا ہونگے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ميرے بھائى آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ اس نے جس گناہ سے توبہ كر لى ہو اسے عظيم اور بڑا سمجھے؛ كيونكہ اللہ تعالى كى رحمت اور اس كى معافى و مغفرت اس كے گناہوں سے بھى بڑھ كر ہے.

اور جن گناہوں كا تعلق كسى شخص اور آدمى سے ہو، اس كا حق واپس كرنا واجب ہے، اور جن گناہوں كا تعلق اللہ اور بندے كے مابين ہے تو اس سے صرف توبہ و استغفار، اور اس كام پر ندامت كا اظہار، اور آئندہ ان گناہوں كى طرف نہ پلٹنے كا عزم كرنا ضرورى ہے.

توبہ كى شرط ميں شامل نہيں كہ توبہ كرنے والے كو حد لگائى جائے تو اللہ تعالى كى جانب سے اس كے گناہوں كى پردہ پوشى، اور سچى اور پكى توبہ كرنا حد لگوانے كے ليے گناہوں كے اعتراف كرنے سے بہتر ہے.

اور اس شخص نے اپنى توبہ بہتر طريقہ سے كى ہے، اور حقداروں كو ان كے حقوق بھى واپس كر ديے ہيں، چنانچہ جس كى توبہ قبول ہو چكى ہو شيطان آكر اس كى توبہ كو خراب نہ كرے.

آپ يہ بھى علم ميں ركھيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى توبہ كرنے والے كى برائيوں كو نيكيوں ميں بدل ديتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور وہ لوگ جو اللہ تعالى كے ساتھ كسى اور كو الہ نہيں بناتے اور نہ ہى وہ اللہ تعالى كے حرام كردہ كسى نفس كو ناحق قتل كرتے ہيں، اور نہ ہى زنا كا ارتكاب كرتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے وہ گنہگار ہے، اسے روز قيامت ڈبل عذاب ديا جائيگا، اور وہ ذليل ہو كر اس ميں ہميشہ رہے گا، ليكن جو شخص توبہ كر لے اور ايمان لے آئے اور اعمال صالحہ كرے، تو يہى وہ لوگ ہيں اللہ تعالى جن كى برائيوں كو نيكيوں ميں بدل ديتے ہيں، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے، اور جو كوئى توبہ كر لے اور نيك و صالح اعمال كرے تو اس نے اللہ كى طرف توبہ كر لى ہے الفرقان ( 68 - 71 ).

اور جو حدود حكمران تك پہنچ جائيں ان كا جارى كرنا واجب ہو جاتا ہے، ليكن جو نہ پہنچے تو افضل يہى ہے كہ اس سے توبہ كر لى جائے اور اللہ تعالى كى پردہ پوشى كو پردہ ميں ہى رہنے ديا جائے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:

" جب شرعى حاكم كے پاس كسى حد كا معاملہ پہنچ جائے، اور كافى دلائل كے ساتھ وہ ثابت بھى ہو جائے تو اس حد كو لگانا واجب ہے، اور بالاجماع وہ حد توبہ سے ساقط نہيں ہو گى، غامدى قبيلہ كى عورت توبہ كرنے كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور مطالبہ كيا كہ اسے حد لگائى جائے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے بارہ ميں فرمايا تھا:

" يقينا اس نے ايسى توبہ كى ہے اگر اہل مدينہ وہ توبہ كريں تو انہيں كافى ہو جائے "

اور اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كو شرعى حد لگائى، ليكن حكمران كے علاوہ كسى اور كو يہ حق حاصل نہيں.

ليكن جب سزا حكمران كے پاس نہ پہنچى ہو: تو مسلمان آدمى كو چاہيے كہ اللہ تعالى نے جس كو پردہ ميں ركھا ہے اسے پردہ ميں رہنے دے، اور وہ اللہ تعالى كے سامنے سچى اور پكى توبہ كرے، اميد ہے كہ اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرمائيگا "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 15 ).

زنا سے توبہ قبول ہونے ميں شك كرنے اور حد لگوانے كى رغبت ركھنے والے شخص كے رد ميں كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:

" جب انسان اپنے پروردگار كے سامنے پكى اور سچى خالص توبہ كر ليتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالى نے وعدہ كيا ہے كہ وہ توبہ كرنے والے كى توبہ قبول كريگا، بلكہ وہ اس كے عوض ميں اسے نيكياں عطا فرمائيگا، جو كہ اللہ تعالى كے جود و كرم ميں شامل ہوتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور وہ لوگ جو اللہ تعالى كے ساتھ كسى اور كو الہ نہيں بناتے اور نہ ہى وہ اللہ تعالى كے حرام كردہ كسى نفس كو ناحق قتل كرتے ہيں، اور نہ ہى زنا كا ارتكاب كرتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے وہ گنہگار ہے، اسے روز قيامت ڈبل عذاب ديا جائيگا، اور وہ ذليل ہو كر اس ميں ہميشہ رہے گا، ليكن جو شخص توبہ كر لے اور ايمان لے آئے اور اعمال صالحہ كرے، تو يہى وہ لوگ ہيں اللہ تعالى جن كى برائيوں كو نيكيوں ميں بدل ديتے ہيں، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے الفرقان ( 68 - 70 ).

اور توبہ كى شروط ميں گناہ كو فورى طور پر چھوڑ دينا، اور جو ہو چكا ہے اس پر ندامت كا اظہار كرنا، اور آئندہ اس كام كو نہ كرنے كا عزم كرنا شامل ہے، اور اگر اس كا تعلق كسى آدمى كے حقوق سے ہو تو پھر اس شخص سے معافى طلب كرنا بھى توبہ كى شروط ميں شامل ہوتا ہے.

عورتوں كى بيعت كے متعلق عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سے جس نے بھى اپنا عہد پورا كيا تو اس كا اجر اللہ كے ذمہ ہے، اور جس نے اس ميں سے كسى چيز كا ارتكاب كر ليا اور اسے سزا مل گئى تو وہ اس كے ليے كفارہ ہوگا، اور جس نے اس ميں سے كسى چيز كا ارتكاب كيا اور اللہ تعالى نے اس كى پردہ پوشى كيے ركھى تو اس كا معاملہ اللہ كے سپرد ہے، اگر اللہ چاہے تو اسے عذاب دے، اور اگر چاہے تو اسے بخش دے "

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سچى توبہ كرنے كى ترغيب دلاتے ہوئے توبہ پر ابھارا بھى ہے، اور ماعز اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ كے قصہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم نے اسے چھوڑ كيوں نہ ديا، اميد ہے وہ توبہ كرتا تو اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرما ليتا "

اور امام مالك رحمہ اللہ نے موطا ميں زيد بن اسلم سے روايت كى ہے اس ميں ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" لوگو! تمہارے ليے ايك وقت آئيگا كہ تم اللہ تعالى كى حدود سے رك جاؤ، جو شخص بھى ان غلط كاموں كا ارتكاب كرے تو اسے چاہيے كہ وہ اللہ تعالى كى پردہ پوشى كو پردہ ميں ہى رہنے دے، كيونكہ جو بھى ہمارے سامنے اپنا پہلو ظاہر كريگا، ہم اس پر اللہ تعالى كى كتاب جارى كرينگے "

اس ليے آپ كو سچى اور پكى توبہ كرنى چاہيے، اور آپ نماز باجماعت كى پابندى كريں، اور نيكى كے كام كثرت سے كيا كريں "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 44 ).

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 624 ) اور ( 20983 ) اور ( 728 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب