جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

فاسق كے پيچھے نماز ادا كرنے كا حكم

47884

تاریخ اشاعت : 14-06-2011

مشاہدات : 12473

سوال

ايسے امام كے پيچھے نماز ادا كرنے كا حكم كيا ہے جو بچپن اور جوانى ميں اپنے ساتھ لواطت كرواتا رہا، يہ علم ميں ركھيں كہ وہ قرآن مجيد كا حافظ ہے اور اس كى آواز بہت اچھى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر تو يہ امام اللہ تعالى كے ہاں توبہ كر چكا ہے، اور اس كى حالت سدھر چكى ہے تو اسے امام بنانے ميں كوئى حرج نہيں، اور اس كى پيچھے نماز ادا كرنے ميں بھى كوئى حرج نہيں.

اور نہ ہى كسى كو يہ حق حاصل ہے كہ اسے اس گناہ كى عار دلائے جس سے وہ توبہ كر چكا ہے، اور نہ ہى سزا دے سكتا ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

يقينا اللہ تعالى سارے گناہ معاف كر ديتا ہے الزمر ( 53 ).

يعنى جو شخص توبہ كرتا ہے اس كے گناہ معاف كر ديتا ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" توبہ كرنے والا ايسے ہى ہے جيسے كسى كے گناہ نہ ہوں "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 4250 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور اگر وہ ابھى تك اس عظيم برائى پر قائم ہے، تو اسے وعظ ونصيحت كرنا اور اللہ تعالى كا خوف دلانا ضرورى ہے، اگر پھر بھى وہ توبہ نہيں كرتا تو اسے امامت سے ہٹانے كى كوشش كر كے اس كى جگہ دينى طور پر مستقيم شخص كو امام بنايا جائے، جو تقوى كى خصلتوں سے مالا مال ہو.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز ميں قبلہ رخ تھوكنے والے شخص كو امامت سے ہٹا ديا، اور اسے منع كر ديا كہ اپنى قوم كو نماز مت پڑھائے اور اسے فرمايا:

" يقينا تو نے اللہ اور اس كے رسول كو اذيت سے دوچار كيا ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 481 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

تو پھر اس عظيم برائى كے مرتكب شخص كو كيسے امام بنايا جاسكتا ہے ؟ كيونكہ يہ تو امامت سے ہٹائے جانے كا زيادہ حقدار ہے، اور اس لائق ہے كہ اسے منصب سے دور كر ديا جائے!!

اور اس ليے بھى كہ اسے امام بنانے ميں اس كى تعظيم اور عزت ہو گى اور فاسق شخص اس تعظيم كا اہل نہيں.

اور پھر غالب طور پر لوگ امام كى اقتدا كرتے اور اس سے تعليم حاصل كرتے ہيں، اور اس كى ارشاد و راہنمائى قبول كرتے ہيں، اس ليے امام جتنا عادل اور دين والا شخص ہو گا اتنا ہى لوگوں كے ليے فائدہ مند ہو گا، اور لوگ اس كى بات بھى اتنى ہى زيادہ تسليم كريں گے.

جبكہ فاسق شخص كى بات لوگ قبول ہى نہيں كرتے، بلكہ ہو سكتا ہے وہ شخص تو بعض لوگوں كے ليے فتنہ كا باعث بن جائے، اللہ تعالى اس سے محفوظ ركھے.

دوم:

رہا مسئلہ فاسق كے پيچھے نماز كى ادائيگى صحيح ہے يا نہيں؟ تو اس مسئلہ ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، جمہور علماء كرام كے مطابق اس كے پيچھے كراہيت كے ساتھ نماز كى ادائيگى صحيح ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں كہتے ہيں:

" صحيح بخارى اور دوسرى كتب ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كا حجاج بن يوسف كے پيچھے نماز ادا كرنا ثابت ہے، اور بہت سى صحيح احاديث فاسق اور ظالم اماموں كے پيچھے نماز كى ادائيگى صحيح ہونے پر دلالت كرتى ہيں.

ہمارے اصحاب كا كہنا ہے: فاسق كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح ہے حرام نہيں، ليكن مكروہ ہے، اسى طرح اس بدعتى كے پيچھے جو اپنى بدعت كى وجہ سے كافر نہ ہوتا ہو نماز ادا كرنا صحيح ہے، ليكن اگر وہ بدعت كفريہ ہو تو ہم پہلے بيان كر چكے ہيں كہ سب كفار كى طرح اس كے پيچھے بھى نماز ادا كرنا صحيح نہيں.

اور المختصر ميں امام شافعى رحمہ اللہ تعالى نے بيان كيا ہے فاسق اور بدعتى كے پيچھے نماز ادا كرنا مكروہ ہے، ليكن اگر نماز ادا كرلے تو اس كى نماز صحيح ہو گى " اھـ

ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 151 ).

اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" چنانچہ اگر ايك ہى مسلك والے دو شخص ہوں تو ان ميں سے جو شخص بھى كتاب و سنت كا زيادہ عالم ہو تو يہ متعين ہے كہ دوسرا شخص زيادہ علم ركھنے والے كو امامت كے ليے مقدم كرے، اور اگر ان ميں سے كوئى ايك فاجر ہو ، مثلا وہ جھوٹ و كذب اور خيانت وغيرہ دوسرے فسق كے اسباب ميں معروف ہو، اور دوسرا شخص مومن اور متقى ہو تو يہ دوسرا شخص امامت كا اہل ہونے كى صورت ميں امامت كا زيادہ حقدار ہے.

اور اگر پہلا شخص زيادہ حافظ و قارئ اور عالم ہو تو بعض علماء كرام كے ہاں فاسق كے پيچھے نماز ادا كرنا حرام اور منع ہے، اور بعض كے نزديك يہ نہى تنزيہ ہے... اور نيك و صالح شخص كو امامت بنانا ممكن ہونے كى صورت ميں فاسق شخص كو امام بنانا جائز نہيں " اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميۃ ( 23 / 341 ).

اور ايك جگہ پر اس طرح كہتے ہيں:

" اگر كسى بہتر اور نيك و صالح شخص كو امام بنانا ممكن ہو تو نشہ كرنے اور چرس اور افہيم كھانے والے، يا پھر حرام كام كے مرتكب شخص كو امام بنانا جائز نہيں .....

اور فاسق امام كے پيچھے نماز كى ادائيگى ميں كراہت پر سب آئمہ كا اتفاق ہے، ليكن نماز صحيح ہونے ميں اختلاف ہے، ايك قول يہ ہے كہ نماز صحيح نہيں، جيسا كہ امام مالك، اور امام احمد كى ايك روايت ہے.

اورايك قول يہ ہے كہ: بلكہ نماز صحيح ہے، جيسا كہ ابو حنيفہ، شافعى كا قول، اور امام مالك اور امام احمد كى ايك روايت ہے، اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ اسے امام نہيں بنانا چاہيے" اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميۃ ( 23 / 375 ).

مزيد تفصيل كے ليے ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 304 ).

سوم:

فاسق امام كے ساتھ كيا سلوك كيا جائے اس ميں اہل علم تفصيل بيان كرتے ہيں:

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

( اس بنا پر اگر وہ مسجد كا امام ہو اور نصيحت قبول نہ كرے اگر ہو سكے اور فتنہ نہ پيدا ہو تو اسے معزول كرنا واجب ہے، اور اگر ايسا نہ ہو سكے تو پھر اس كے علاوہ كسى اور نيك و صالح امام كے پيچھے نماز ادا كرنا واجب ہے جسے يہ ميسر ہو، تا كہ اس امام كى ڈانٹ ڈپٹ ہو اور انكار ہو سكے، اگر اس ميں كوئى فتنہ نہ پيدا ہوتا ہو.

اور اگر اس كے علاوہ كسى اور كے پيچھے نماز ادا كرنا ميسر نہ ہو تو پھر جماعت كى مصلحت كو مدنظر ركھتے ہوئے اس كے پيچھے ہى نماز ادا كرنا مشروع ہے.

اور اگر كسى دوسرے كے پيچھے نماز ادا كرنے سے فتنہ و فساد كا خدشہ ہو تو پھر اس فتنہ كو ختم كرنے اور دو نقصانوں ميں سے كم كا ارتكاب كرتے ہوئے اسى كے پيچھے نماز ادا كى جائيگى )انتہى

ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 370 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب