سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كمپنى ميں رشوت اور سود خور شخص كى شراكت

سوال

تاجر كو ايك شخص نے تجارت كے ليے كچھ رقم دى، ليكن يہ رقم دينے والا شخص رشوت خورى اور سودى كاروبار كرتا ہے، كيا اس تاجر كو كے ذمہ كوئى گناہ ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جو شخص بھى حرام طريقے مثلا سود، رشوت، چورى اور دھوكہ دہى وغيرہ كے ساتھ مال كماتا ہے، اگر تو اس كے مال ميں حرام اور حلال ملا جلا ہے، تو كراہت كے ساتھ اس كے ساتھ خريد و فروخت كا لين دين كرنا صحيح ہے، اور اگر يہ علم ہو جائے كہ جس مال كے ساتھ وہ تجارت كرنا چاہتا ہے وہ بيعنہ حرام مال ہے، تو اس كى شراكت كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كے ساتھ لين دين كرنا چاہيے.

ابن قدامہ المقدسى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور جب وہ اس سے خريدارى كرے جس كا مال حلال اور حرام دونوں ہيں، مثلا ظالم بادشاہ، اور سود خور تو اگر يہ معلوم ہو جائے كہ فروخت كردہ چيز اس كے حلال مال ميں سے ہے تو وہ حلال ہے، اور اگر يہ معلوم ہو جائے كہ وہ حرام مال ميں سے ہے تو وہ حرام ہوگى...

اور اگر يہ معلوم نہ ہو سكے كہ وہ كونسے مال ميں سے ہے تو ہم اسے ناپسند اور مكروہ جانيں گے؛ كيونكہ اس ميں حرام ہونے كا احتمال پايا جاتا ہے، ليكن حلال كا احتمال ہونے كى بنا پر بيع باطل نہيں ہوگى، چاہے وہ قليل ہو يا كثير، اور يہ شبہ ہے، اور حرام مال كى كثرت يا قلت كے حساب سے شبہ بھى بڑا اور چھوٹا ہوگا " انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 4 / 180 ).

اور قيلوبى اور عميرۃ كے حاشيہ ميں ہے:

" اگرچہ مكروہ بھى ہو تو شراكت صحيح ہوگى، جس طرح كہ ذمى اور سود خور اور جس كا اكثر مال حرام كا ہو " انتہى.

ديكھيں: حاشيۃ قيلوبى و عميرۃ ( 2 / 418 ).

اور دسوقى كے حاشيہ ميں ہے:

" يہ علم ميں ركھيں كہ جس كا اكثر مال حلال ہو اور حرام كا مال قليل ہو تو اس ميں معتبر يہى ہے كہ اس كے ساتھ لين دين كرنا اور اس سے معاملات كرنا اور اس كے مال سے كھانا جائز ہے، جيسا كہ ابن قاسم كا كہنا ہے، اور يہ اصبغ كے خلاف ہے، كيونكہ وہ اس كى حرمت كے قائل ہيں "

ديكھيں: حاشيۃ الدسوقى ( 3 / 277 ).

ليكن جس كا اكثر مال حرام ہو اور حلال قليل ہو تو اس ميں ابن قاسم كا مسلك يہ ہے كہ اس سے لين دين اور معاملات كرنا اور اس كے مال سے كھانا مكروہ ہے، اور يہى متعبر اور اصبخ كے خلاف ہے جو كہ اسے حرام كہتے ہيں.

اور جس كا سارا مال حرام كا ہو اور يہى مستغرق ذمہ سے مراد ہے تو اس كے ساتھ لين دين اور معاملات نہيں كيے جائينگے، اور اس سے مالى تصرف وغيرہ نہيں كيا جائيگا " انتہى.

دوم:

شراكت كرنے سے قبل آپ كے ليے ضرورى ہے كہ جس شخص كى حالت ايسى ہو اسے نصيحت كريں، اور اسے اس ظلم سے چھٹكارا حاصل كرنے كى ترغيب دلائيں كہ وہ مظلوموں كو ان كا مال واپس كردے، اور اسے حلال اور طيب مال كمانے كى ترغيب دلائيں، كيونكہ جنت اچھى اور پاكيزہ جگہ ہے، اور اس ميں داخل بھى اچھا اور پاكيزہ شخص ہى ہوگا، اور آپ اسے مسلسل حرام كھانے اور حرام مال كى كمائى جارى ركھنے سے ڈرائيں كيونكہ جو جسم بھى حرام مال كے ساتھ پلا ہو اس كے ليے جہنم كى آگ زيادہ بہتر اور لائق ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب