جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

اسلام قبول کرنا چاہتی ہے اوراسے کچھ گھریلو اورملازمت اورتعلقات کی مشکلات درپیش ہیں

4816

تاریخ اشاعت : 12-07-2003

مشاہدات : 4959

سوال

میں اسلام کا مطالعہ کررہی ہوں اورچندایک سوال کے جوابات درکارہیں:
1 - میرے کچھ مسلمان مرد دوست ہیں اورہماری یہ دوستی بہت مضبوط ہے وہ میرے ساتھ اپنے ایک فرد کی حیثیت سے معاملات کرتے ہيں ، توکیا اگرمیں مسلمان ہوجا‎ؤں توان کے میرے ساتھ تعلقات میں فرق پڑ ےگا ؟
مثلا جب میں ان کے گھروں میں جا‎‎ؤں توان کی بیویاں اندر کچن میں کھانے وغیرہ میں یا پھربچوں کے ساتھ مشغول ہوں یا پھر ٹیلی ویژن دیکتھی رہیں اورمیں مردوں کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کروں اس لیے کہ میں اپنے دوستوں سے ان لحظات کا ختم نہیں کرنا چاہتی ۔
2 - میں نمازجمعہ میں کیا کروں مجھ پراس سلسلہ میں کیا واجب ہے ؟
میں ایسی جگہ پرملازمت کرتی ہوں جہاں پرمعاملات بہت زیادہ سخت ہیں ، اورپھروہاں پرمیرے ساتھ سب ملازمت کرنے والے مسلمانوں کے بھی سخت مخالف ہيں اورمجھے ڈرہے کہ اگرمیں اسلام قبول کرلوں توان میں میرے لیے تبدیلی پیدا ہوجاۓ گی ۔
میں نے ایک جگہ پڑھا ہے کہ نماز میں کوئ اورکسی نیابت اختیار کرسکتا ہے توکیا ایسا کرنا صحیح ہے ؟
3 - میراخاندان سخت قسم کا عیسائ ہے اورمیں نےبھی عیسا‏ئیت پرہی تربیت پائ ہے اورمیراخاوند بھی ایک عیسائ ہی ہے لیکن مجھے وہ نہ تو اسلام کے مطالعہ سے منع کرتا ہے اورنہ ہی اس پر عمل کرنے سے ، تواگر میں اسلام قبول کرتی ہوں توپھرمیں اپنے خاندان والوں سے کس طرح کہ معاملات کروں تا کہ وہ مجھے میرے حال پرہی رہنے دیں ؟
4 - میرے لیے طبعی طورپر ایسا قدم اٹھانا ایک بہت بڑی چوٹی سر کرنے کے مترادف ہے ، اورابھی تک مجھے شک ہے کہ آیا میں کوئ صحیح کام کررہی ہوں یا کہ نہیں ( یعنی میرااسلام قبول کرنا ) تویہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ مجھے سو فیصدی یقین ہوجاۓ کہ یہ کام صحیح ہے ؟
میں اندر سے تویہی محسوس کرتی ہوں کہ یہ کام صحیح ہے ، لیکن عقل میں کئ قسم کے خدشات ہیں جس طرح کہ آپ نے میرے سوالات سے بھی اندازہ لگایا ہوگا ۔
میرا اللہ تعالی کی وحدانیت پریقین ہے اورہمیشہ ہی میری یہ حالت رہتی ہے ، میں نے شیخ احمد دیدات کی کتاب اختیار کا مطالعہ بھی کیا ہے اوراب مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا بھی یقین ہے ، اوراسی طرح میں ہمیشہ موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کی بھی قائل رہی ہوں لیکن میں ابھی تک اپنے اندر تردد کیوں محسوس کرتی ہوں ؟
توکیا میں اب تیار ہوں کہ آخری اورسب سے بڑا قدم اٹھاؤں ؟
میں اس موضوع کےبارہ میں بہت زيادہ دعا کرتی ہوں اورمیری خواہش ہے کہ مجھے جواب بھی جلدی دیا جاۓ ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

کیا آپ کا یہ اقدام صحیح ہے ؟ اورکیاآپ اس بہت بڑے اقدام پرتیارہيں ؟

یہ دوسوال بہت ہی اہم ہیں جن پرآپ کی وہ ساری کلام مشتمل ہے آپ نے سوال کی شکل میں ہمارے سامنے پیش کی ہے ایک طرف توہم آپ کے مشکور ہیں کہ آپ نے اس مسئلہ میں ہم سے مشورہ طلب کیا ہے اوراس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی کہيں گے اورہمارا اعتقاد بھی یہی ہے کہ آپ جوقدم اٹھانا چاہتی ہيں وہ بالکل صحیح ہے جس کے صحیح ہونے کوئ شک وشبہ کی گنجائش کا شائبہ تک بھی نہیں اور نہ ہی اس میں کسی قسم کاتوقف ہی پایا جاتا ہے ۔

اس لیے کہ یہ وہ دین الہی ہے جس کے علاوہ اللہ تعالی کوئ اوردین اپنے بندوں سے قبول ہی نہین فرماۓ گا جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس فرمان میں ذکر کیا ہے :

اورجوبھی اسلام کے علاوہ کوئ اوردین تلاش کرنے کی کوشش کرے گا اس کا وہ دین قبول نہيں کیا جاۓ گا اوروہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا ۔

اورہوسکتا ہے کہ آپ نے موازنہ بھی کیا ہو اوراس کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کا اطمنان کیا ہوگا کہ یہی وہ دین حق ہے جس کی اتباع ضروری اورواجب ہے ، اورکسی شخص کے لیے صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ وہ اللہ تعالی کی وحدانیت اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پرایمان اورمرنے کےبعددوبارہ اٹھنے پربھی ایمان رکھے لیکن جب تک وہ کلمہ نہیں پڑھتا اوردینی شعارپرعمل نہيں کرتا تواس کی نجات نہیں ہوسکتی ۔

ہمیں جوظاہر ہوتا ہے کہ یہ جوتردد اورشک ہے وہ اس کا نتیجہ نہیں کہ حق کاپتہ نہیں چلا اوراس پراطمنان نہیں ہوا بلکہ یہ تردد کچھ خدشات کا نتیجہ ہیں جو کہ معاشرتی ، اوردوست واحباب اورخاوند اورملازمت وغیرہ کے خدشات ہیں ۔

جواب کا کچھ حصہ ہم نے سوال نمبر ( 4775 ) میں ذکر کیا ہے آپ اس کا مطالعہ کریں ، اورآپ کامسلمانوں سے تعارف و معرفت کے سلسلہ میں یہ ہے کہ آپ قبول اسلام کے بعد مسلمان عورتوں کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں نہ کہ مردوں کے ساتھ کیونکہ اسلام تعلیمات بھی یہی ہے کہ عورت غیرمردوں سے تعلقات نہیں رکھ سکتی ۔

ابتدامیں توآپ کویہ معاملہ کچھ مشکل سا نظر آۓ گا اورآپ کوپریشانی اٹھانی پڑے گی لیکن مستقبل میں آپ کے لیے اس میں آسانی پیدا ہوگی ، اگروہ عورتیں مشغول ہوں توآپ ان کے علاوہ کچھ اورمسلمان عورتوں سے تعلقات بنائيں جوکہ پکی اورسچی مسلمان ہوں اورآپ کوحق کی وعظ ونصیحت کریں ۔

اوراگرآپ اپنے رب سے سچائ‏ اورصدق دل اوراخلاص کا مظاہرہ کریں گی تواللہ تعالی آپ کے گھریلو خاندانی اورخاوند کے بارہ میں سب مشکلات آسان ہوجائيں گی اورآپ اسے آسانی سے حل کرلیں گی ۔

رہا مسئلہ جمعہ کی نماز کا تواس کے بارہ میں ہم یہ کہيں گے کہ عورتوں پرنماز جمعہ واجب اورفرض نہیں اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( چارقسم کے اشخاص کے علاوہ ہرمسلمان پرجماعت میں جمعہ واجب ہے ان چاروں ميں ایک توغلام شخص یا پھر عورت یا بچہ اورمریض ہیں ) سنن ابوداوود حدیث نمبر ( 901 ) ۔

عورت پریہ فرض ہے کہ وہ جمعہ کے دن ظہر کے وقت میں چاررکعت ادا کرے اوراس کے لیے بھی کوئ شرط نہیں کہ وہ مسجد میں جاۓ بلکہ وہ جہاں ہے اسی گھرمیں نماز ادا کرسکتی ہے ۔

اورآپ نے نماز کے بارہ میں جویہ سنا یا پڑھا ہے کہ اس میں نیابت بھی ہوسکتی ہے اورکسی کی طرف کوئ اورشخص نماز ادا کرسکتا ہے ، اس کے متعلق ہم یہ کہیں گے کہ اسلام میں بالکل اس کی گنجائش نہيں اورمطلقا یہ صحیح نہيں ہے کہ کوئ بھی دوسرے کی طرف سے نماز ادا کرے ۔

اس لیے کہ نماز فرض عین ہےجوکہ ہرمسلمان شخص پرفرض ہے جس میں وکالت قبول نہیں کی جاتی اورنہ ہی کسی کے لیے کہ جائز ہے کہ وہ کسی اورکے لیے نماز ادا کرے ، بہر حال جو بھی ہوآپ اس کی نماز جمعہ تومحتا ج نہیں اس لیے کہ اوپرہم نے آپ کے لیے بیان کردیا ہے ۔

تواس طرح آپ کے معاملہ کی خلاصہ یہ ہے کہ :

آپ اللہ تعالی پرتوکل کی محتاج ہیں اوراسی پرتوکل کریں اوراللہ تعالی کی رضا کے لیے کوشش جاری رکھیں اوراس کا سب سے اچھا ذریعہ قبول اسلام ہے آپ اسلام میں داخل ہوں اگرچہ لوگ آپ سے ناراض ہوتے رہیں جب آپ اللہ تعالی کے رب اورالہ معبود ہونے اوراس کے دین کی اتباع اورپیروی پرراضي ہوں گی تواللہ تعالی آپ کوخائب خاسر نہيں چھوڑے گا بلکہ آپ کوعزت وکامیابی سے نوازے گا ۔

ہمارے ظن اورخیال میں یہ چیزغالب ہے کہ آپ اس بہت بڑے قدم کواٹھانے (قبول اسلام ) کے لیےان شاء اللہ تیار ہیں ، اورآپ اس جواب کا خلاصہ اپنے ذہن میں رکھیں وہ اخلاص کے ساتھ قبول اسلام کا اقدام اورپھر اللہ تعالی پرتوکل ہے ۔

ہم اللہ تعالی سے آپ کے لیے دعاگوہیں کہ وہ آپ کواس کی توفیق عطا فرماۓ ، آمین یا رب العالمین ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد