الحمد للہ.
اول:
تدوین السنہ کا عمومی معنی راوی کی روایات کو قلم بند کرنے کا ہے، اور صحیفوں میں احادیث کی تدوین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد سے شروع ہو گئی تھی۔
سنت کی تدوین کا بنیادی ترین سبب احادیث کو بھولنے سے محفوظ کرنا تھا۔
اس سبب کو ثابت کرنے کے لیے کسی دلیل اور حجت کی ضرورت نہیں ہے، یہ بات بالکل واضح ہے۔
اس کی مثال صحیح بخاری: (113) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ کہتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام میں سے کوئی بھی مجھ سے زیادہ احادیث یاد کرنے والا نہیں تھا، سوائے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے؛ کیونکہ وہ احادیث لکھ لیتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔
تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و کبار تابعین رحمہم اللہ کے دور میں کئی لوگ ایسے پائے گئے ہیں جو اپنی کچھ نہ کچھ روایات کو لکھ لیا کرتے تھے، تاہم انہوں نے سنت کی تدوین اس انداز سے نہیں کی تھی جو اس اصطلاح کا مخصوص معنی ہے، یعنی احادیث کو خصوصی طور پر کتابوں میں لکھ کر محفوظ کرنا، جیسے کہ قرآن کریم کو ایک کتابی شکل میں جمع کیا گیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت احادیث کو کتابی شکل میں جمع کرنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے ، اس حوالے سے متعدد روایات بھی منقول ہیں۔
اس کی دو بنیادی وجہ تھیں:
پہلی وجہ: قرآن کریم کی طرف توجہ کم نہ ہو جائے، یا قرآن کریم کے ساتھ غیر قرآن خلط ملط نہ ہو جائے۔
دوسری وجہ: اس دور میں سنت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا کلام اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل دونوں ہی قرآن کی وضاحت کرنے والے تھے، پھر اس زمانے میں سند بھی چھوٹی سی ہوتی تھی اور اکثر اوقات ذکر بھی نہیں کی جاتی تھی، یعنی سند اتنی لمبی نہیں ہوتی تھی کہ قوت حافظہ رکھنے والے عرب اسے یاد نہ رکھ سکیں، چنانچہ عرب اپنی یاد داشت پر اتنا اعتماد رکھتے تھے کہ کسی چیز کے لکھنے پر انہیں خدشہ ہوتا تھا کہ ان کی قوت حافظہ تحریر پر اعتماد کرنے کی وجہ سے کمزور نہ ہو جائے، بالخصوص حدیث مبارکہ کو یاد رکھنے کے لیے بعینہٖ الفاظ کو یاد کرنا ضروری نہیں ہوتا تھا کہ قرآن کی طرح الفاظ اور تلاوت دونوں عبادت ہوں، بلکہ احادیث کے معنی پر عمل کرنا مطلوب ہوتا ہے، اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر ایک صحابی کو ساری کی ساری احادیث کا علم بعینہٖ الفاظ کے ساتھ ہو، بلکہ کچھ احادیث بھی کسی صحابی کو معلوم ہیں تو یہ کافی ہوتا تھا، اور جب ضرورت محسوس کرتے تو ایک دوسرے سے پوچھ لیا کرتے تھے۔
الشیخ عبد الرحمن بن یحیی معلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“شرعی طور پر احادیث سے مطلوب سنت کا مفہوم اور معنی ہے، چنانچہ قرآن کریم کی طرح الفاظ اور معنی دونوں ہی مطلوب نہیں ہیں؛ کیونکہ قرآن کریم کے الفاظ و معنی دونوں کا مجموعہ کلام الہی ہے، اور یہ مجموعہ اپنے اندر اعجاز بھی رکھتا ہے، چنانچہ قرآن کریم کے الفاظ کو پڑھتے ہوئے معمولی سی تبدیلی بھی روا نہیں ہوتی، جبکہ اللہ تعالی نے حدیث کے معاملے میں قدرے نرمی فرمائی اور سنت کی تبلیغ کے لیے اتنا ہی کافی سمجھا گیا کہ کچھ صحابہ کرام کو ان کا علم ہو جائے۔” ختم شد
“الأنوار الكاشفة – ضمن آثار المعلمي” (12/43)
صحابہ کرام میں سے کچھ افراد احادیث بیان کرتے تھے، اور احادیث پر عمل کرنے کے لیے احادیث کی جستجو میں بھی رہتے تھے، لیکن اس میں بہت زیادہ وسعت اختیار نہیں کرتے تھے۔
الشیخ عبد الرحمن بن یحیی معلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ بہت زیادہ احادیث بیان کرنے سے روکتے تھے، اس کی دو وجوہات تھیں:
اول: حدیث اسی وقت بیان کی جائے جب ضرورت ہو۔
دوم: لوگ قرآن کریم سے غافل ہو کر غیر ضروری طور پر حدیث کی طرف مائل نہ ہو جائیں۔
آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت صرف تبھی کرو جس وقت عمل کی ضرورت ہو” اس اثر میں لفظ “عمل” کے اندر عبادات، معاملات اور آداب سب شامل ہیں۔” ختم شد
“الأنوار الكاشفة – ضمن آثار المعلمي” (12/61)
اس طریقہ کار کو اپنانے سے صحابہ کرام پر حسب ضرورت احادیث کو یاد کرنا آسان ہو گیا، لہذا انہیں احادیث یاد کرنے کے لیے کسی الگ سے کتاب یا تالیف کی ضرورت نہیں تھی، بالکل ایسے ہی جیسے نزول قرآن آہستہ آہستہ ہوا، جس کی وجہ سے قرآن کریم کو ان کے لیے یاد کرنا آسان ہو گیا اور انہیں قرآن کریم کے ایک مصحف کی شکل میں ہونے کی ضرورت نہیں پڑی۔
خطیب بغدادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ابتدائے اسلام میں جن سے بھی کتابت حدیث کی کراہت ثابت ہے وہ اس لیے تھی کہ کوئی چیز کتاب اللہ کے برابر نہ سمجھ لی جائے، یا قرآن کو چھوڑ کر لوگ کسی اور چیز میں مصروف نہ ہو جائیں، اسی طرح سابقہ کتابوں کا مطالعہ کرنے سے بھی منع کر دیا گیا؛ کیونکہ ان کتابوں میں سے کیا چیز حق اور کیا چیز تحریف شدہ ہے اس کا پتہ نہیں لگایا جا سکتا، نہ ہی صحیح اور غلط کا پتہ لگایا جا سکتا ہے، پھر قرآن کریم کے ہوتے ہوئے کسی سابقہ کتاب کی ضرورت نہیں ہے بلکہ قرآن کریم خود ہی سابقہ کتابوں کی امین کتاب ہے، چنانچہ ابتدائے اسلام میں غیر قرآن کو لکھنے سے روک دیا گیا؛ کیونکہ اس وقت وحی اور غیر وحی میں تفریق کرنے والے سمجھدار لوگ کم تھے؛ اس لیے کہ اکثریت تو خانہ بدوشوں کی تھی جنہیں دین کے تمام تر ذیلی اور فرعی امور کا بھی علم نہیں تھا، نہ ہی انہیں اہل علم و معرفت کی صحبت حاصل تھی، اس لیے خدشہ تھا کہ کہیں کچھ بھی لکھے ہوئے کو قرآن نہ سمجھ لیں، اور کسی بھی صحیفے میں لکھی ہوئی عبارت کو کلامِ رحمن شمار نہ کر لیں۔
اس وقت لوگوں کو احادیث یاد کرنے کا حکم دیا گیا؛ کیونکہ سند ابھی مختصر بھی تھی، اور زمانہ بھی عہد نبوت سے قریب کا تھا، نیز کتابت پر اعتماد کرنے سے بھی روک دیا گیا؛ کیونکہ تحریر پر اعتماد کرنے سے ممکن تھا کہ قوت حافظہ کمزور ہو جائے، تو جب تحریری طور پر کوئی چیز موجود نہ ہو گی تو انسان اسے یاد رکھنے کی اچھی طرح کوشش کرے گا اور یاد چیز انسان کے ساتھ ہر وقت موجود ہو تی ہے۔” ختم شد
“تقييد العلم” (ص57)
ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جس نے بھی کتابتِ علم کو مکروہ گردانا اس کی دو وجوہات تھیں:
پہلی وجہ: تا کہ قرآن کے مد مقابل کوئی چیز نہ آ جائے۔
دوسری وجہ: کاتب اپنی تحریر پر اعتماد نہ کر بیٹھے اور یاد نہ کرے، اس طرح قوت حافظہ کمزور ہو جائے گی۔” ختم شد
“جامع بيان العلم وفضله” (1/292)
دوم:
لیکن ابتدائے اسلام کے بعد اور بالخصوص دوسری صدی ہجری میں خاص کتابوں اور تالیفات کی شکل میں باقاعدہ تدوین سنت کی ضرورت محسوس ہونے لگی؛ کیونکہ اب حالات بدل چکے تھے، لوگوں کے سامنے احادیث کی تعداد بھی زیادہ ہو چکی تھی؛ کیونکہ جب تابعین عظام نے دیکھا کہ صحابہ کرام اور کبار تابعین کی تعداد کم ہوتی چلی جا رہی ہے اور سب داعی اجل کو لبیک کہہ رہے ہیں تو انہوں نے روایات کو تلاش کر کے یاد کرنے اور لکھنے کا اہتمام شروع کر دیا۔
جیسے کہ صحیح بخاری: (99) میں عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ انہوں نے ابو بکر بن حزم رحمہ اللہ کو لکھ بھیجا تھا کہ: “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جو بھی حدیث دیکھو اسے پرکھ کر لکھ لو؛ کیونکہ مجھے علم کے مٹ جانے اور علمائے کرام کے دنیا سے رخصت ہو جانے کا خدشہ ہے۔”
الشیخ عبد الرحمن بن یحیی معلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“تحقیق کے بعد ثابت شدہ بات یہ ہے کہ: کبار صحابہ کرام بھی اس بات کے قائل تھے کہ احادیث اس وقت بیان کرنی چاہییں جب ان کے بیان کرنے کی ضرورت ہو، وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر انہوں نے ضرورت کے بغیر ہی حدیث بیان کی تو یہ ان کی طرف سے غلطی ہو گی اور ممکن ہے کہ ان کا اس پر مواخذہ بھی ہو، لیکن ضرورت کے وقت حدیث بیان کرنے پر ایسا نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس وقت حدیث بیان کرنا ان پر لازم ہے تو ایسے میں اللہ تعالی انہیں غلطی سے محفوظ رکھے گا یا ان کا مواخذہ نہیں فرمائے گا، یہی وجہ ہے کہ سب صحابہ کرام سے احادیث منقول ہیں، کسی ایک صحابی سے بھی یہ منقول نہیں ہے کہ انہیں کسی حدیث کا علم تھا اور اس حدیث کے بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس صحابی نے روایت بیان نہیں کی۔
جبکہ صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت اس بات کی قائل اور فاعل تھی کہ احادیث بیان کی جائیں اگرچہ ابھی ان کی عملی طور پر ضرورت محسوس نہ ہو، ان کا یہ ماننا تھا کہ ضرورت سے پہلے بھی روایت بیان کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (میری طرف سے روایت بیان کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔)اس کے علاوہ اور بھی دلائل ہیں جن میں علم پھیلانے اور احادیث کو نشر کرنے کی ترغیب موجود ہے۔”
بہ ہر حال ہر ایک کا الگ موقف ہے اور مجموعی طور پر سب خیر پر کار بند تھے۔
پھر جب صحابہ کرام کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی چلی گئی تو دوسرے گروہ کا موقف وزنی ہوتا چلا گیا۔” ختم شد
“الأنوار الكاشفة – ضمن آثار المعلمي” (12/61)
تو یہی صورت حال قرآن کریم کی عہد نبوت میں تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں قرآن پاک کو ایک کتابی شکل میں جمع کرنے کی ضرورت نہیں تھی ، لیکن جیسے جیسے حفاظ صحابہ کرام کی وفات بڑھتی چلی گئی قرآن کریم کو ایک کتابی شکل میں جمع کرنے کی ضرورت بھی زور پکڑتی چلی گئی۔
جیسے کہ عبید بن سباق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “میرے پاس سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اہل یمامہ کی شہادتوں کے بعد پیغام بھیجا، اس وقت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس تھے، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے پاس عمر تشریف لائے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ: جنگ یمامہ میں بہت سے حفاظ قرآن اپنی جانیں نچھاور کر چکے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ جنگوں میں اسی طرح حفاظ قرآن قربانیاں پیش کرتے رہے تو کہیں قرآن ضائع نہ ہو جائے، اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کتابی شکل میں قرآن جمع کرنے کا حکم دیں۔۔۔۔” صحیح بخاری: (4986)
اسی طرح مرویات کی تعداد بھی بڑھ گئی ؛ کیونکہ سنت میں احادیث کے ساتھ صحابہ کرام کے فتاوی اور فیصلے بھی شامل ہونے لگے تھے، ایسے ہی تابعین کے فتاوی اور اقوال بھی معتبر سمجھے جانے لگے۔
جیسے کہ مصنف عبد الرزاق “المصنف” (11/258) میں معمر سے مروی ہے وہ صالح بن کیسان سے روایت کرتے ہیں کہ: “میں اور ابن شہاب زہری اکٹھے حصولِ علم میں مشغول تھے، تو ہم دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم سنت کو لکھ لیتے ہیں، تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہر چیز لکھ لی، پھر ہم نے صحابہ سے منقول آثار بھی لکھنے کا ارادہ کیا، تو میں نے کہا: نہیں ، صحابہ کے اقوال سنت نہیں ہیں۔ جبکہ ابن شہاب نے کہا: کیوں نہیں وہ بھی سنت ہیں، تو انہوں نے لکھ لیے، میں نے نہ لکھے، اس پر ابن شہاب تو کامیاب ہو گئے، لیکن میں ضائع ہو گیا۔ ” ختم شد
پھر ساتھ ہی اسانید بھی لمبی ہوتی چلی گئیں ، اور کثرت راویوں کی وجہ سندیں بھی متعدد ہو گئیں۔
پھر یہ چیز بھی سامنے آئی کہ بدعتی لوگوں کے اقوال پھیلنا شروع ہو گئے، اور اپنی رائے کو پیش کرنے کا رجحان بڑھنے لگا، ساتھ ہی خود ساختہ روایات بھی سامنے آنے لگیں۔
تو ان تمام اسباب نے محدثین کرام کو اس بات پر ابھارا کہ جو احادیث بھی ان کے پاس ہیں انہیں مستقل کتب احادیث میں لکھا جائے تا کہ سنت کی حفاظت بھی ہو اور لوگوں میں احادیث کو پھیلایا بھی جا سکے۔
خطیب بغدادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“لوگ پہلے لکھنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے، لیکن پھر بھر پور انداز میں لکھا اور باقاعدہ طور پر علم کی تدوین کی؛ کیونکہ روایات بہت زیادہ پھیل چکی تھیں، سندیں بھی طویل ہو چکی تھیں، پھر راویوں کے نام، کنتیں اور نسب بھی زیادہ ہو چکے تھے، الفاظ کے ذریعے بیان میں اختلاف ہونے لگا، تو ان سب چیزوں کو یاد کرنا مشکل ہونے لگا تھا۔ ۔۔۔ ” ختم شد
“تقييد العلم” (ص64)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ذہن نشین کر لو! اللہ تعالی مجھے اور آپ کو علم کی دولت سے نوازے! نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے آثار صحابہ کرام اور کبار تابعین کے دور میں الگ الگ کتابوں میں مدون اور مرتب نہیں تھے، اس کی دو وجوہات تھیں:
پہلی وجہ: آغاز میں کتابت علم سے روکا گیا تھا، جیسے کہ صحیح مسلم کی روایت میں صحیح ثابت ہے، مبادا حدیث اور قرآن دونوں آپس میں خلط ملط نہ ہو جائیں۔
دوسری وجہ: ان کی قوت حافظہ بہت مضبوط تھی، ہر چیز فوری یاد کر لیتے تھے، اور پھر ان میں سے اکثریت کتابت جانتی بھی نہیں تھی۔
پھر تابعین کے زمانے کے آخر میں احادیث کو مدون کرنے کا رجحان بڑھتا چلا گیا کہ احادیث کو باب بندی کی شکل میں مرتب کیا جائے؛ کیونکہ اہل علم اسلامی مملکت کے دور دراز علاقوں تک پھیل چکے تھے، پھر خوارج، روافض اور تقدیر کے منکرین جیسے بدعتی لوگوں کی بھی بھر مار ہو چکی تھی۔ ایسے میں سب سے پہلے تدوین علم کا کام ربیع بن صبیح اور سعید بن ابی عروبہ نے کیا۔۔۔۔” ختم شد
“هدي الساري” (ص6)
مذکورہ بالا تمام امور عمومی اسباب ہیں، چنانچہ ایسا بھی ممکن ہے کہ ہر تصنیف کے خصوصی اسباب بھی ہوں، لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مصنف کی تصنیف کا ایک خاص سبب ہے جس کی بنا پر اس کتاب کی تصنیف ہوئی اور اس کے لیے مخصوص طریقہ کار اپنایا، جیسے کہ صحیح بخاری کی تصنیف کا واقعہ بھی مشہور ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ہم ایک بار اسحاق بن راہویہ کے پاس تھے تو انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ: اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر مشتمل صحیح احادیث کی کتاب لکھو تو بہت اچھا ہو گا۔ امام بخاری کہتے ہیں: اس وقت سے یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی اور میں نے الجامع الصحیح مرتب کرنا شروع کر دی۔۔۔” ختم شد
“هدي الساري” (7)
اسی طرح ابو موسی مدینی رحمہ اللہ “خصائص مسند الإمام أحمد” (ص14) میں لکھتے ہیں کہ:
“عبد اللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں: میں نے اپنے والد رحمہ اللہ سے عرض کیا: آپ کتابیں لکھنا اچھا نہیں سمجھتے لیکن ساتھ ہی آپ نے مسند مرتب بھی کی ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے یہ کتاب رہنما امام کے طور پر تیار کی ہے کہ جب لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کے متعلق اختلاف ہو تو اس کتاب سے رجوع کر لیں۔” ختم شد
واللہ اعلم