الحمد للہ.
اگر تو اس شخص كى عادت تھى كہ وہ آپ سے قرض حاصل كرنے سے قبل بھى آپ كو ہديہ وغيرہ ديا كرتا تھا، مثلا وہ آپ كو دوست يا رشتہ دار وغيرہ تھا تو اس ہديہ كو قبول كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ يہ قرض كے باعث نہيں ہے.
ليكن اگر آپ كو ہديہ دينا اس شخص كى عادت ميں شامل نہيں تھا تو پھر آپ كے ليے يہ ہديہ قبول كرنا جائز نہيں، كيونكہ ہو سكتا ہے يہ قرض كى بنا پر ہو، اور اگر آپ اس صورت ميں ہديہ قبول كرتے ہيں تو يہ تو آپ سودى معاملہ ميں پڑ جائينگے اور يہ سود بن سكتا ہے، كيونكہ قاعدہ اور اصول يہ ہےكہ:
" جو قرض بھى نفع لائے وہ سود ہے "
اور يہ قرض آپ كے ليے نفع كھينچ لايا ہے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 30842 ) اور ( 39505 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
اور اس ليے بھى كہ ہو سكتا ہے اس نے يہ ہديہ اس ليے ديا ہو كہ وہ آپ سے اور مہلت اور وقت مانگنا چاہتا ہو، اور يہ بھى سود ہے.
اس كى دليل سنن ابن ماجہ كى روايت كردہ حديث ہے: يحى بن ابى اسحق بيان كرتے ہيں كہ ميں نے نے انس بن ماكل رضى اللہ تعالى عنہ سے دريافت كيا كہ:
ہم ميں سے ايك شخص كسى دوسرے كو بطور قرض مال دے اور اسے ہديہ ديا جائے؟
تو انہوں نے كہا: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب تم ميں سے كوئى شخص دے تو اسے ہديہ ديا جائے، يا پھر اسے جانور پر سوارى كرائى جائے تو وہ نہ تو اس جانور پر سوار ہو، اور نہ ہى ہديہ قبول كرے، ليكن اگر ان كے مابين اس سے قبل اس كى عادت ہو "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2432 )، شيخ الاسلام ابن تيميہ نے " الفتاوى الكبرى ( 6 / 159 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور ابن سيرين رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ كو دس ہزار درہم قرض ديے تو ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ نے اپنى زمين كا پھل انہيں بطور ہديہ ديا، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے ان كو واپس كرديا، اوراسے قبول نہ كيا، تو ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس آئے اور كہنے لگے:
اہل مدينہ كو علم ہے كہ ميرا پھل سب سے بہتر اور اچھا ہوتا ہے، اور ہميں اس كى ضرورت نہيں، تو آپ نے ہمارا ہديہ قبول كيوں نہيں كيا ؟
تو پھر انہوں نے اس كے بعد انہيں ہديہ ديا تو انہوں نے اسے قبول كر ليا "
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے ہديہ رد اس ليے كيا كہ انہيں يہ خيال آيا كہ كہيں يہ ہديہ قرض كى بنا پر نہ ہو، ليكن جب انہيں يہ يقين ہوا كہ يہ قرض كى بنا پر نہيں تو انہوں نے ہديہ قبول كر ليا، اور مقروض شخص كا ہديہ قبول كرنے كے نزاح ميں يہ فيصلہ ہے. اھـ
اور امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح بخارى ميں ابو بردہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں:
" ميں مدينہ آيا تو عبد اللہ بن سلام رضى اللہ تعالى عنہ سے ملا تو انہوں نے مجھے كہا: آپ ايسى جگہ رہتے ہيں جہاں سود بہت زيادہ عام ہے جب آپ كا كسى شخص پر حق ہو اور وہ تجھے بھوسہ، يا جويا يا جانوروں كا چارہ بھى بطور ہديہ دے تو اسے نہ لو، كيونكہ وہ سود ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3814 ).
" القت " جانوروں كے كھانے كى ايك بوٹى ہے.
اس طرح كى كلام كئى ايك صحابہ كرام سے ثابت ہے، ابن قيم رحمہ اللہ تعالى " اعلام الموقعين " ميں كہتے ہيں:
" ان صحابہ كرام ميں سے كئى ايك مثلا ابى بن كعب، ابن مسعود اور عبد اللہ بن سلام، اور ابن عمر، اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہم سے بيان كيا جا چكا ہے كہ انہوں نے مقروض شخص كا ہديہ قبول نہيں كيا، اور اسے قبول كرنا سود قرار ديا ہے " اھـ
ديكھيں: اعلام الموقعين ( 3 / 136 ).
اور امام شوكانى رحمہ اللہ " نيل الاوطار " ميں كہتے ہيں:
" حاصل يہ ہوا كہ اگر تو ہديہ يا عاريہ قرض ميں اور مہلت لينے اور وقت زيادہ كرنے كے ليے ہو، يا قرض خواہ كے ليے بطور رشوت ہو، يا قرض خواہ كو قرض كے بدلے نفع دينے كے ليے ہو تو يہ حرام ہے؛ كيونكہ يہ سود اور رشوت كى ايك قسم ميں سے ہے.
اور اگر مقروض اور قرض خواہ كى عادت ميں سے ہو كہ وہ اس قرض سے قبل بھى ايك دوسرے كو ہديہ ديتے ہيں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور اگر يہ اصلا يہ اس غرض سے نہيں تو ظاہر يہى ہے كہ اسے قبول نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ اس كى ممانعت مطلقا ہے " اھـ
ديكھيں: نيل الاوطار ( 6 / 257 ).
اور بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ مقروض شخص كا ہديہ قرض خواہ كے ليے قبول كرنا جائز ہے، ليكن اسے واپس كرنا افضل ہے، اور يہى تقوى ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت اور صحابہ كرام كا طريقہ زيادہ اس لائق ہے كہ اس پر عمل كيا جائے " اھـ
ديكھيں: اعلام الموقعين ( 3 / 136 ).
اگر آپ يہ كہيں كہ:
كيا ہديہ رد كرنے كے علاوہ اور بھى كئى حل ہے، اور سود ميں واقع ہونے كے علاوہ اور بھى كچھ ہے ؟
تو اس كا جواب يہ ہے كہ:
جى ہاں، اگر آپ اسے رد كرنے سے انكار كريں، اور ضرور قبول كرنا چاہيں تو پھر آپ كے سامنے دو چيزيں ہيں ان ميں سے جو چاہيں اسے اختيار كريں:
يا تو اسے اسى طرح كا ہديہ ديں يا اس سے بھى بہتر اور اچھا، يا پھر اسے قرض ميں شامل كريں، تو اس كى قيمت قرض ميں سے كم كر كے ہديہ كے مالك سے اتنا قرض كم واپس ليں.
سعيد بن منصور اپنى سنن ميں بيان كرتے ہيں كہ عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے پاس ايك شخص آيا اور كہنے لگا:
ميں نے بغير كسى تعارف كے ايك شخص كو قرض ديا، تو اس نے مجھے كچھ ہديہ ديا، تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے:
" اسے اس كا ہديہ واپس كردو، يا اسے قرض ميں سے شامل كرلو"
اور سعيد بن منصور ہى بيان كرتے ہيں كہ سالم بن ابى جعد نے بيان كيا: ايك شخص ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كے پاس آيا اور كہنے لگا:
ميں نے ايك مچھلى فروض شخص كو بيس درھم قرض ديے، تو اس نے مجھے ايك مچھلى ہديہ دى، تو ميں نے اس كى قيمت لگوائى تو وہ تيرہ درھم تھى، تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے: اس سے سات درھم لے لو " اھـ
ديكھيں: المجموع الفتاوى الكبرى ابن تيميہ ( 6 / 159 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر كوئى كہنے والا كہے:
جب يہ مسئلہ حرام ہے تو اسے اصل پر كيوں نہيں لوٹايا جاتا ؟
تو ہم كہينگے: اس ليے كہ ہو سكتا ہے اسے حياء اور شرم روك دے اور رد كرنے سے ہديہ دينے والے كا دل ٹوٹ جائے، تو ہم كہتے ہيں:
اسے لے لو، اور اسے اتنا يا اس سے بھى زيادہ بدلہ دينے كى نيت كرلو، يا اس كى قيمت قرض ميں شامل كر لو تو اس ميں كوئى حرج نہيں " اھـ كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 9 / 61 ).
اوپر جو حرمت بيان ہوئى ہے وہ اس وقت ہے جب قرض كى ادائيگى سے قبل ہديہ ديا جائے، اور اگر قرض كى ادائيگى كے بعد ہديہ ديا گيا ہو تو اسے قبول كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اگر ادائيگى كے بعد تھوڑا يا زيادہ ہديہ ديا جائے تو يہ جائز ہے " اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع ( 9 / 59 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ المغنى ابن قدامہ ( 6 / 437 ) اور الشرح الممتع ( 9 / 59 - 61 ) كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .