جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

عيدين كى نماز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ

سوال

ميں نماز عيدين ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ كا طريقہ معلوم كرنا چاہتا ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز عيدين عيدگاہ ميں ادا كيا كرتے تھے، مسجد ميں نماز عيد ادا كرنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں ہے.

امام شافعى رحمہ اللہ تعالى" الام " ميں رقمطراز ہيں:

ہم تك يہ پہنچا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز عيدين كے ليے مدينہ كى عيدگاہ تشريف لے جايا كرتے تھے، اور اسى طرح ان كے بعد والے بھى، ليكن بارش وغيرہ كا عذر ہوتا تو پھر نہيں، اور اسى طرح عمومى طور پر سب علاقوں كے لوگ سوائے مكہ والوں كے. انتہى

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد كے ليے سب سے خوبصورت اور اچھا لباس زيب تن كيا كرتے تھے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس ايك حلہ تھا جو عيدين اور جمعہ والے دن پہنا كرتے تھے.

( حلہ ايك ہى جنس كے دو كپڑوں كو كہتے ہيں ).

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر كى نماز كے ليے جانے سے قبل طاق كھجوريں تناول فرمايا كرتے تھے.

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر والے دن نكلنے سے قبل كھجوريں كھا كر نكلتے، اور كھجوريں طاق كھاتے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 953 ).

ابن قدمہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

ہميں تو عيد الفطر والے دن جلد كھانے كے استحباب ميں كسى اختلاف كا علم نہيں. انتھى

عيد الفطر كى نماز سے قبل كھانے ميں حكمت يہ ہے كہ كوئى گمان كرنے والا شخص يہ گمان نہ كرے كى نماز عيد ادا كرنے تك روزہ ركھنا لازم ہے.

اور ايك قول يہ بھى ہے كہ:

روزہ ركھنے كے وجوب كے بعد افطار كے وجوب پر اللہ تعالى كے حكم كو تسليم كرنے ميں جلدى كرنا.

اگر كسى مسلمان شخص كو كھجور نہ ملے تو وہ كسى اور چيز كو كھا كر ہى ناشتہ كر لے چاہے پانى پى لے، تا كہ سنت پر عمل ہو سكے، كيونكہ سنت يہ ہے كہ عيد الفطر ادا كرنے سے قبل كچھ كھايا جائے.

ليكن عيد الاضحى ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيدگاہ سے واپس پلٹنے تك كچھ نہيں كھاتے تھے، اور عيدگاہ سے واپس آكر اپنى قربانى ميں كچھ نہ كچھ كھاتے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ بھى مروى ہے كہ: آپ صلى اللہ عليہ وسلم عيدين كے ليے غسل فرمايا كرتے تھے.

ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے: اس ميں دو حديثيں ہيں،اور دونوں ہى ضعيف ہيں، ليكن ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما جو سنت پر بہت شدت سے عمل پيرا تھے ان سے ثابت ہے كہ وہ عيد والے دن عيدگاہ جانے سے قبل غسل كيا كرتے تھے. اھـ

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز عيد كے ليے پيدل جاتے اور پيدل ہى واپس تشريف لاتے.

ابن ماجہ رحمہ اللہ تعالى نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيدگاہ پيدل جاتے اور پيدل ہى واپس پلٹے"

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1295 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ابن ماجہ ميں حسن قرار ديا ہے.

امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:

" سنت يہ ہے كہ تم عيد كے ليے پيدل جاؤ "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 530 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن كہا ہے.

امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اكثر اہل علم كے ہاں اس حديث پر عمل ہے، وہ عيد كے ليے پيدل جانا مستحب قرار ديتے ہيں، اور سوار نہ ہونا مستحب ہے، ليكن عذر كى بنا پر سوار ہو سكتا ہے.

جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيدگاہ پہنچ جاتے تو تو بغير كسى اذان اور اقامت كے نماز شروع كرديتے، اور نہ ہى" الصلاۃ جامعۃ" كا اعلان كرتے سنت يہى ہے كہ اس ميں سے كچھ بھى نہ كيا جائے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيدگاہ ميں نماز عيد سے قبل اور نہ ہى بعد ميں كوئى ركعت ادا كرتے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ خطبہ عيد سے قبل نماز عيد كى ادائيگى كرتے اور دو ركعت نماز عيد پڑھاتے جس كى پہلى ركعت ميں تكبير تحريمہ كے علاوہ مسلسل سات تكبيريں كہتے، اور ہر تكبير كے مابين تھوڑى دير كا سكتہ كرتے، تكبيروں كے مابين نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كوئى دعاء وغيرہ منقول نہيں، ليكن ابن مسعود رضى اللہ تعالى سے بيان كيا جاتا ہے كہ وہ كہا كرتے تھے:

كہ وہ اللہ كى حمد بيان كرے، اور اس كى ثنا كرے، اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درورد پڑھے.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نبى كريم صلى اللہ عليہ كى اتباع كرتے ہوئے ہر تكبير كے ساتھ رفع يدين كرتے تھے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب تكبيرات مكمل كرليتے تو سورۃ الفاتحہ كى تلاوت كرتے اور اس كے بعد ق والقرآن المجيد پہلى ركعت ميں اور دوسرى ميں ھل اتاك الغاشيۃ كى تلاوت فرماتے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايسا كرنا ثابت ہے، اس كے علاوہ ثابت نہيں.

اور جب قرآت سے فارغ ہوتے تو تكبير كہہ كر ركوع كرتے، اور ركعت مكمل كرنے اور سجدہ كرنے كے بعد كھڑے ہوتے تو مسلسل پانچ تكبيريں كہتے، جب تكبيريں كہہ كر فارغ ہوتے تو قرآت كرتے، تو اس طرح دونوں ركعتوں كى ابتدا تكبيروں سے كرتے، اور قرآت ركوع سے قبل ہوتى.

امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے كثير بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف عن ابيہ عن جدہ كے طريق سے روايت بيان كى ہے كہ:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيدين ميں پہلى ركعت ميں سات تكبيريں اور دوسرى ركعت ميں پانچ تكبيريں قرآت سے قبل كہيں.

امام ترمذى كہتے ہيں:

ميں نے محمد ـ يعنى بخارى رحمہ للہ تعالى ـ سے اس حديث كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے كہا:

اس باب ميں اس حديث سے زيادہ صحيح كوئى نہيں.

اور ميں بھى يہى كہتا ہوں. اھـ

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب نماز سے مكمل كر ليتے تو لوگوں كى طرح رخ كر كے كھڑے ہو جاتے، اور لوگ اپنى صفوں ميں ہى بيٹھے رہتے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں وعظ و نصحيت كرتے، اور انہيں حكم ديتے اور منع كرتے، اور اگر كوئى لشكر روانہ كرنا ہوتا تو اسے روانہ كرتے، يا پھر كسى چيز كا حكم دينا ہوتا تو اس كا حكم ديتے.

عيدگاہ ميں منبر نہيں ہوتا تھا جس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم چڑھ كر خطبہ ديتے، بلكہ لوگوں كے سامنے زمين پر كھڑے ہو كر خطبہ ارشاد فرماتے.

جابر رضى اللہ تعالى كہتے ہيں كہ:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ عيد كى نماز ادا كى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابتدا خطبہ سے قبل بغير كسى اذان اور اقامت كے نماز سے كى، اور پھر بلال رضى اللہ تعالى عنہ پر كے سہارے كھڑے ہو كر اللہ تعالى كے تقوى كا حكم ديا، اور اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى پر ابھارا، اور لوگوں كو وعظ و نصيحت كى اور پھر عورتوں كے پاس گئے اور انہيں بھى وعظ و نصيحت كيا.

متفق عليہ.

اور ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر اور عيد الاضحى كے دن عيدگاہ جاتے اور سب سے پہلے نماز پڑھاتے، اور نماز سے فارغ ہو كر لوگوں كى سامنے كھڑے ہو كر خطبہ ارشاد فرماتے تو لوگ اپنى صفوں ميں ہى بيٹھے ہوتے تھے"

اس حديث كو مسلم رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے سارے خطبے الحمد للہ سے شروع كرتے تھے، اور كسى بھى حديث ميں يہ بيان نہيں ملتا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيدين كا خطبہ تكبير سے شروع كيا ہو.

بلكہ ابن ماجہ رحمہ اللہ نے سنن ابن ماجہ ميں سعد بن قرظ جو كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے مؤذن ہيں ان سے روايت كيا ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خطبہ كے دوران اور اطراف ميں تكبيريں كہا كرتے تھے، اور عيدين كے خطبہ ميں تكبير كہا كرتے تھے"

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1287 ).

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ضعيف ابن ماجہ ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے، حديث ضعيف ہونے كے باوجود يہ اس پر دلالت نہيں كرتى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ خطبہ عيد تكبير كے ساتھ شروع كرتے تھے.

تمام المنۃ ميں شيخ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" اس كے باوجود كہ يہ خطبہ عيد كى تكبير كے ساتھ ابتدا كرنے كى مشروعيت پر دلالت نہيں كرتى، كيونكہ اس كى سند ضعيف ہے، اس ميں ايك شخص ضعيف اور ايك شخص مجھول ہے، لہذا اس سے دوران خطبہ تكبير كى سنت پر استدلال كرنا جائز نہيں. اھـ

اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" لوگ عيدين اور استسقاء كے خطبہ كے افتتاح ميں اخلاف كرتے ہيں:

ايك قول يہ ہے كہ: دونوں خطبے تكبير سے شروع كيے جائيں گے.

ايك قول يہ ہے كہ: استسقاء كا خطبہ استغفار كے ساتھ شروع كيا جائيگا.

اور ايك قول يہ ہے كہ: دونوں خطبے الحمد للہ سے شروع ہونگے.

شيخ الاسلام بن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: يہى صحيح ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بھى اپنے سارے خطبہ الحمد للہ سے شروع كرتے تھے. اھـ.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز عيد ميں شامل ہونے والے شخص كو رخصت دى ہے كہ وہ خطبہ كے ليے بيٹھے يا چلا جائے.

عبد اللہ بن السائب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ عيد ادا كى، جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز عيد پڑھا لى تو فرمانے لگے:

" ہم خطبہ دينےلگے ہيں، جو خطبہ كے ليے بيٹھنا چاہتا ہے وہ بيٹھ جائے اور جو جانا پسند كرتا ہے وہ چلا جائے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1155 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.

عيد والے دن رسول كريم صلى اللہ عليہ عيد گاہ جانے اور واپس آنے ميں راستہ بدلتے تھے، ايك راستے سے جاتے تو دوسرے راستے سے واپس پلٹتے.

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد والے دين راستے كو بدلتے تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 986 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب