الحمد للہ.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى علمى سنت يہى رہى كہ نماز عيدين مسجد نبوى كى بجائے مدينہ كے خارجى دروازے سے باہر عيدگاہ ميں ادا كى جاتى رہى، اور اسى پر عمل ہوتا رہا ہے.
ديكھيں: زاد المعاد لابن قيم ( 1 / 441 ).
شيخ احمد شاكر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس ميں علماء كرام كے اقوال مختلف ہيں:
علامہ عينى حنفى بخارى كى شرح ميں كہتے ہيں، اور وہ ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى كى حديث " رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر اور عيد الاضحى ميں عيدگاہ جاتے اور سب سے پہلے نماز ادا كرتے، اور پھر لوگوں كى طرف رخ كر كے خطبہ ارشاد فرماتے اور لوگ اپنى صفوں ميں ہى بيٹھے ہوتے تھے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں وعظ و نصحيت كرتے اور وصيت فرماتے اور انہيں حكم ديتے، اور اگر كوئى لشكر روانہ كرنا چاہتے تو وہ بھى روانہ كرتے، يا كسى چيز كا حكم جارى كرنا ہوتا تو اس كو جارى كرتے پھر وہاں سے چلے جاتے "
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: لوگ اسى طرح كرتے رہے حتى كہ مروان جو كہ مدينہ كا امير تھا عيد الاضحى يا عيد الفطر ميں عيدگاہ پہنچا جب ہم عيدگاہ پہنچے تو كثير بن صلت نے اس كا منبر تيار كر ركھا تھا، اور مروان نماز سے قبل اس پر چڑھنا چاہتا تھا، تو ميں اس اس كا كپڑا پكڑ كر كھينچا تو وہ زبردستى منبر پر چڑھ كر نماز سے قبل خطبہ دينے لگا ميں نے اسے كہا اللہ كى قسم تم نے تبديلى كر لى.
تو اس نے جواب ديا: ابو سعيد جو تم جانتے تھے وہ جا چكا، تو ميں نے اسے جواب ديا، جس كا مجھے علم ہے اللہ كى قسم وہ اس سے بہتر ہے جو ميں نہيں جانتا، تو وہ كہنے لگا: لوگ نماز كے بعد بيٹھ كر ہمارى بات نہيں سنتے تھے، تو ميں نےخطبہ نماز سے قبل كر ديا"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 956 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 889 ).
اس سے استنباط كرتے ہوئے كہتے ہيں:
اس حديث ميں عيدگاہ كى طرف نكلنے اور وہاں جانے كا بيان ہے، اور ضرورت كے بغير مسجد ميں عيد كى نماز ادا نہيں كى جا سكتى.
ابن زياد نے مالك سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں:
" سنت يہ ہے كہ عيدگاہ كى طرف نكلا جائے، ليكن اہل مكہ مسجد ميں ہى ادا كرينگے"
اور فتاوى ہنديہ ميں ہے:
نماز عيد ميں عيدگاہ جانا سنت ہے، چاہے جامع مسجد وسيع ہى كيوں نہ ہو اور لوگ پورے بھى آجائيں، عامۃ المشائخ كا مسلك يہى ہے، اور صحيح بھى يہى ہے.
ديكھيں: فتاوى ہنديہ ( 1 / 118 ).
اور امام مالك سے مروي " المدونۃ " ميں ہے كہ:
امام مالك رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے كہ:
دو جگہوں پر نماز عيد ادا نہيں كى جائے گى، اور نہ وہ اپنى مسجد ميں نماز ادا كرينگے، ليكن وہ بھى اسى طرح نكليں گے جس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نكلے تھے.
اور ابن وھب نے يونس سے انہوں نے ابن شہاب رحمہ اللہ تعالى سے بيان كيا ہے كہ:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيدگاہ جاتے تھے، اور سب علاقے كے لوگوں نے اسى سنت پر عمل كيا"
ديكھيں: المدونۃ المرويۃ عن مالك ( 1 / 171 ).
ابن قدامہ حنبلى رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں كہتے ہيں:
عيد گاہ ميں نماز عيد ادا كرنا سنت ہے، على رضى اللہ تعالى عنہ نے اس كا حكم ديا تھا، اور اوزاعى رحمہ اللہ تعالى اور اصحاب الرائى نے اسے مستحسن قرار ديا ہے، اور ابن منذر رحمہ اللہ كا بھى يہى قول ہے.
اور شافعى رحمہ اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا جاتا ہے كہ: اگر شہر كى مسجد وسيع ہو تو اس ميں نماز كى ادائيگى اولى اور بہتر ہے، كيونكہ مسجد سب سے بہترين اور پاكيزہ جگہ ہے، اور اسى ليے اہل مكہ مسجد الحرام ميں نماز عيد ادا كرتے ہيں.
پھر امن قدامہ رحمہ اللہ تعالى نے اس قول پر استدلال كرتے ہوئے كہا ہے:
( ہمارى دليل يہ ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز عيد كے ليے مسجد چھوڑ كر عيد گاہ جايا كرتے تھے، اور اسى طرح ان كے بعد خلفاء راشدين بھى، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم قريب ہونے كے باوجو افضل كو ترك نہ كرتے، اور دور ہونے كے ساتھ نافص فعل كا تكلف نہ كرتے، اس ليے ان كى امت كے ليے بھى مشروع نہيں كہ وہ فضائل كو ترك كريں، اور اس ليے بھى كہ ہميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع اور پيروى كا حكم ہے، اور يہ جائز نہيں كہ جس كا حكم ديا گيا ہو وہ ناقص ہو، اور جس سے منع كيا گيا ہے وہ كامل ہو.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ منقول بھى نہيں كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے كسى عذر كے بغير مسجد نبوى ميں نمازعيد ادا كى ہو، اور اس ليے بھى كہ يہ مسلمانوں كا اجماع ہے، كيونكہ ہر دور ميں ہر علاقے كے لوگ نماز عيد كے ليے عيدگاہ ہى جا كر نماز ادا كرتے رہے حالانكہ مسجد وسيع بھى تھى اور تنگ بھى، اور پھر مسجد كے شرف كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيدگاہ ميں نماز عيد ادا كرتے تھے.
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ ( 2 / 229 - 230 )
اور ميں كہتا ہوں ( قائل احمد شاكر ہيں ) ابن قدامہ كا قول " يہ منقول نہيں كہ: بغير كسى عذر كے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مسجد ميں نماز ادا كى ہو "
يہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى اس حديث كى طرف اشارہ ہے جو مستدرك حاكم ميں مروى ہے:
" عيد كے روز بارش ہو گئى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں مسجد ميں نماز پڑھائى "
متسدرك حاكم ( 1 / 295 ) اسے امام حاكم اور ذھبى رحمہما اللہ نے صحيح قرار ديا ہے.
اور اس كے متعلق ابن قيم كہتے ہيں: اگر حديث ثابت ہو، يہ سنن ابو داود اور ابن ماجہ ميں ہے. انتہى ماخوذ از زاد المعاد ( 1 / 441 )، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے " رسالۃ صلاۃ العيدين فى المصلى ھى السنۃ " ميں اس حديث كو ضعيف قرار دے كر امام حاكم اور ذہبى كا رد كيا ہے.
اور امام شافعى رحمہ اللہ تعالى " كتاب الام " ميں كہتے ہيں:
" ہم تك يہ بات پہنچى ہے كہ: مدينہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز عيد كے ليے عيدگاہ تشريف لے جايا كرتے تھے، اور اسى طرح ان كے بعد والے بھى، اور اہل مكہ كے علاوہ باقى عام ملكوں والے بھى، ہميں علم ہوا ہے كہ اہل مكہ والوں كو سلف نے مسجد كے علاوہ كہيں نماز نہيں پڑھائى، ميرے خيال ميں ـ واللہ تعالى اعلم ـ يہ اس ليے كہ كيونكہ مسجد حرام دنيا ميں سب سے بہترين جگہ ہے، اس ليے انہوں نے پسند يہى كيا كہ ان كى نماز اس كے علاوہ كہيں اور نہ ہو....
اگر علاقے ميں آبادى زيادہ ہو اور وہاں كے رہنے والوں كے ليے عيد كى نماز كے ليے مسجد وسيع ہو تو ميرا خيال نہيں كہ وہ وہاں سے نكليں گے، اور اگر نكل كر عيد گاہ نماز ادا كريں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور اگر وہ مسجد ان كے ليے وسعت ركھتى ہے تو امام انہيں وہاں نماز پڑھا دے يہ اس كے ليے مكروہ ہے، اور ان پر نماز كا اعادہ نہيں، اور اگر بارش وغيرہ كا عذر ہو ميں انہيں حكم دونگا كہ وہ مساجد ميں نماز ادا كريں اور صحراء ميں نہ جائيں"
ديكھيں: كتاب الام ( 1 / 107 ).
اور كتاب " المدخل " ميں علامہ ابن الحاج كہتے ہيں:
" نماز عيدين ميں سنت يہ رہى ہے كہ عيدگاہ ميں ادا كى جائے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ميرى اس مسجد ميں نماز باقى مساجد سے ايك ہزار نماز سے افضل ہے، سوائے مسجد حرام كے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1190 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1394 )
پھر عظيم فضيلت كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مسجد نبوى ميں نماز عيد نہيں پڑھى بلكہ وہاں سے عيدگاہ گئے، جو كہ اس كى واضح دليل ہے كہ نماز عيدين كا حكم يہى ہے كہ عيدگاہ ميں ادا كى جائے، اور يہى سنت ہے.
امام مالك كے مسلك كے مطابق مسجد ميں نماز عيد ادا كرنا بدعت ہے ليكن اگر اس كى ضرورت ہو تو پھر بدعت نہيں ہو گى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا نہيں كيا اور نہ ہى خلفاء راشدين نے، اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں كو نماز عيدين كے ليے جانے كا حكم ديا ہے، اور پھر حيض اور كنوارى عورتوں تك كو عيدگاہ جانے كا حكم ديا تو ايك عورت كہنے لگى:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اگر ہم ميں سے كسى كے پاس اوڑھنى نہ ہو تو؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اس كى بہن اسے اپنى اوڑھنى عاريتا دے تا كہ وہ خير و بھلائى اور مسلمانوں كے ساتھ دعاء ميں شريك ہو سكے"
ديكھيں: صحيح بخارى حديث نمبر ( 324 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 890 ).
المدخل ( 2 / 283 ).
لہذا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں كے ليے جانا مشروع كيا تو پھر كھلى جگہ ميں نماز عيد ادا كرنا مشروع ہے، تا كہ اسلام كا شعار اور علامت ظاہر ہو"
احاديث صحيحہ ميں جو سنت وارد ہے وہ اس پر دلالت كرتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز عيدين شہر سے باہر صحراء ميں ادا فرمائى اور پہلے دور ميں اسى پر عمل ہوتا رہا، وہ لوگ مسجد ميں نماز عيد ادا نہيں كرتے تھے، ليكن بارش وغيرہ كى صورت ميں مساجد ميں ادا ہوتى تھى.
آئمہ اربعہ وغيرہ كا يہى مسلك ہے، ميرے علم ميں تو نہيں كہ كسى نے اس كى مخالفت كى ہو، صرف امام شافعى رضى اللہ عنہ كا قول ہے كہ انہوں نے مسجد ميں نماز عيد ادا كرنے كے قول كو اختيار كيا ہے كہ اگر علاقے كے لوگوں كو مسجد كافى اور وہ اس ميں وسعت كے ساتھ آجائيں تو اس ميں نماز ادا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس كے باوجود چاہے مسجد وسيع بھى ہو تو صحراء اور كھلى جگہ عيدگاہ ميں نماز ادا كرنے ميں كوئى حرج نہيں سمجھتے، انہوں نے يہ صراحتا بيان كيا ہے كہ اگر علاقے كے ليے لوگوں كو مسجد كافى اور وسيع نہ ہو تو ان كا مسجد ميں نماز عيد ادا كرنا مكروہ ہے.
يہ صحيح احاديث اور پھر عصر اول ميں اس پر مسلسل عمل، اور پھر علماء كرام كے اقوال يہ سب اس كى دليل ہيں كہ: اب مسجد ميں نماز ادا كرنا بدعت ہے، حتى كہ امام شافعى كے قول پر بھى؛ كيونكہ ہمارے ملك ميں كوئى مسجد ايسى نہيں جو علاقے كے لوگوں كو كافى ہو اور وہ سب اس ميں آجائيں.
پھر يہ ايسى سنت ہے جس ميں علاقے كے سب لوگ مرد و عورت اور بچے اكٹھے ہو كر اپنے دلوں كے ساتھ اللہ كى طرف متوجہ ہوتے ہيں، انہيں ايك كلمہ جمع كرتا ہے، اور وہ ايك امام كے پيچھے جمع ہو كر نماز ادا كرتے اور تكبير و اللہ كى توحيد بيان كرتے ہوئے اللہ تعالى سےاخلاص كے ساتھ دعا كرتے ہيں، گويا كہ وہ سب ايك ہى شخص كا دل ہوں، اپنے اوپر اللہ كى نعمتوں سے خوش و فرحان ہوتے ہيں، تو تو عيد كا دن واقعتا ان كے ليے عيد ہوتى ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كے ساتھ عورتوں كو بھى نكلنے كا حكم ديا اور كسى كو بھى استثنى نہيں كيا، بلكہ جس كے پاس پردہ كرنے كے ليے چادر نہ ہو اسے بھى رخصت نہيں كہ وہ جائے، بلكہ اسے حكم ديا كہ وہ اپنى كسى دوسرى بہن سے عاريتا چادر لے كر اوڑھے اور عيدگاہ جائے، حتى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو اس عورت كو بھى جانے كا حكم ديا جو نماز ادا كرنے سے معذور ہے اور اس نے نماز ادا نہيں كرنى، ليكن وہ بھى عيدگاہ ضرور جائے: تاكہ وہ سب مسلمانوں كے ساتھ خير و بھلائى اور دعاء ميں شريك ہوں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے بعد خلفاء راشدين، اور گورنر اور دوسرے علاقوں ميں ان كے نائب لوگوں نماز عيد پڑھاتے، اور پھر انہيں خطبہ ميں وعظ و نصحيت كرتے، اور انہيں دين و دنيا كى نفع مند اشياء كى تعليم ديتے، اور اس اجتماع ميں انہيں صدقہ و خيرات كا حكم ديتے رہے، جس پر ان پر رحمت اور بخشش كا نزول ہوتا ہے.
ہو سكتا ہے مسلمان اسے قبول كرتے ہوئے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت پر عمل كريں، اوراپنے دينى شعار كا اظہار كريں، جو ان كى عزت و فلاح كى بنياد ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
اے ايمان والو! جب تمہيں اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ايسى چيز كى طرف بلائيں جس ميں تمہارى زندگى ہو تو ان كى بات كو تسليم كرو الانفال ( 24 ).
احمد شاكر رحمہ اللہ تعالى كى سنن ترمذى پر تعليق ميں كلام ختم ہوئى.
ديكھيں: سنن ترمذى ( 2 / 421 - 424 ).
واللہ اعلم .