الحمد للہ.
اول :
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے سوال میں یہ کہا ہے کہ قدرت نے چاہا ، یہ قول صحیح نہیں کیونکہ چاہنے والا تو اللہ واحد قھار ہے اس کے علاوہ کوئي نہیں ۔
اس کی مزید تفصیل سوال نمبر ( 8621 ) کےجواب میں گزر چکی ہے آپ اس کا مطالعہ کریں ۔
دوم :
رمضان المبارک میں بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ ترک کرنا اکبر الکبائر میں سے ہے ، اورایسا کرنے والا فاسق ہوگا اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے اس کبیرہ گناہ سے توبہ کرے ۔
رمضان المبارک میں بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ ترک کرنے والے کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سخت قسم کی وعید ثابت ہے :
امام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے روایت بیان کی ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں بغیر کسی عذر کے روزہ ترک کرنےوالوں کو دیکھنے کے بارہ میں فرمایا :
( میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ کونچوں کے بل لٹکے ہوئے تھے اوران کی باچھیں کٹی ہوئي تھیں ان میں خون بہہ رہا تھا ، تومیں نے کہا یہ کون لوگ ہیں ؟ وہ کہنے لگے : یہ وہ لوگ ہیں جوروزہ افطار ہونے سے ہی روزہ کھول دیتےتھے ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ ( 3951 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
اس بنا پر اس خاوند کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرے اور روزے کے معاملہ میں سستی و کاہلی سے کام نہ لے کیونکہ یہ بہت ہی خطرناک معاملہ ہے ، اورآپ پر بھی واجب ہے کہ اس میں خاوند کی اطاعت نہ کریں ، کیونکہ اللہ تعالی کی مخالفت میں کسی بھی مخلوق کی اطاعت نہيں ۔
رمضان المبارک میں روزہ تو صرف اس کے لیے ترک کرنا مشروع کیا گيا ہے جسے کوئي شرعی عذر ہومثلا مرض وبیماری یا پھر سفر وغیرہ ، لیکن کسی مسلمان کا بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ ترک کرنا تواللہ تعالی کے عذاب اورغضب کو دعوت دینا ہے ، ہم اللہ تعالی سے سلامتی و عافیت طلب کرتے ہيں
آپ مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 38747 ) کے جواب کا مطالعہ ضرور کریں ۔
سوم :
جماع روزہ توڑنے والی اشیاء میں شامل ہے بلکہ گناہ کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے اس بنا پر اس میں کفارہ بھی واجب ہوتا ہے ۔
شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
رمضان میں دن کے وقت روزے کی حالت میں جماع کرنے والے مقیم یعنی جومسافر نہ ہو پر کفارہ مغلظہ ہے جوایک غلام آزاد کرنا ہے اگر غلام نہ پائے تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ، اگراس کی بھی استطاعت نہ ہو توساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ، جب عورت بھی جماع میں راضي ہو تو اس پر بھی اسی طرح کفارہ واجب ہوگا ۔
لیکن اگروہ مکرہہ یعنی اسے مجبور کیا جائے اوروہ اس پر راضي نہ ہو تواس پر کچھ لازم نہيں آئے گا ، اوراگرخاوند اوربیوی دونوں مسافرہوں توان پر کوئي گناہ نہیں اور نہ ہی کفارہ اورباقی سارا دن کھانے پینے سے پرہيز کرنا لازم ہے ، بلکہ انہيں صرف اس دن کے بدلے میں بطور قضاء روزہ رکھنا ہوگا ، کیونکہ مسافرہونے کی بنا پر ان کے لیے روزہ لازم نہيں تھا ۔
روزہ کی حالت میں اپنے شہرمیں رہتے ہوئے ایسا شخص جس پر روزہ رکھنا لازم تھا اگرجماع کرلے تو اس پر مندرجہ ذيل پانچ اشیاء مرتب ہوتی ہيں:
اول : گناہ ۔
دوم : روزہ فاسد ہوجاتا ہے ۔
سوم : بقیہ سارا دن کھانے پینے سے احتراز کرنا ۔
چہارم : قضاء واجب ہوجاتی ہے ۔
پنجم : کفارہ واجب ہوجاتا ہے ۔
کفارہ کی دلیل مندرجہ ذيل حدیث ہے :
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آيا اورکہنے لگا : اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تو ہلاک ہوگيا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پوچھا کس چيز نے تجھے ہلاک کردیا ؟
وہ شخص کہنے لگا : میں رمضان میں روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کربیٹھا ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے : کیا تم غلام آزاد کرسکتے ہو؟ وہ کہنے لگا میں استطاعت نہيں رکھتا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : کیا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتےہو ؟ وہ کہنے لگا میں اس کی بھی طاقت نہيں رکھتا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ وہ کہنے لگا نہيں ، راوی بیان کرتے ہیں کہ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم ٹھر گئے ۔
ہم اسی حالت میں تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ٹوکرا لايا گیا جس میں کھجوریں تھیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے سائل کہاں ہے ؟ وہ شخص کہنے لگا میں ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
یہ لے جاؤ اوراسے صدقہ کردو ، تووہ شخص کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سے بھی زيادہ فقیر شخص پر ، اللہ کی قسم ان دومیدانوں کے مابین کوئي گھرمیرے گھروالوں سےزیادہ فقیر نہیں ہے ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے حتی کہ آپ کے آگلے لمبے دانت نظر آنے لگے پھر آپ نے فرمایا اپنے گھر والوں ہی کھلا دو ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1936 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1111 )
اوریہ شخص بھی اگر روزے رکھنے کی استطاعت نہيں رکھتا اورنہ ہی کھانا کھلا سکتا ہے تواس سے بھی کفارہ ساقط ہوجائے گا ، اس لیے کہ اللہ تعالی کسی نفس کو بھی اس کی استطاعت سے زيادہ مکلف نہیں کرتا اورکسی چيز سے عاجز ہونے کی بنا پر وہ واجب نہيں ہوتی ۔
اس میں کوئي فرق نہيں کہ انزال ہوا یا نہيں جب جماع ہوگيا ہو تو پھر انزال کی شرط نہيں ہے ، بخلاف اس کے کہ اگر جماع کے بغیر انزال ہوجائے ، تواس میں گناہ کے ساتھ ساتھ باقی دن کھانے پینے سے احتراز اورقضاء بھی لازم ہوگی ۔ اھـ
دیکھیں فتاوی الصیام صفحہ نمبر ( 337 ) ۔
شيخ رحمہ اللہ تعالی سے اس خاوند کے متعلق سوال کیا گيا جواپنی بیوی کو رمضان میں دن کے وقت جماع پر مجبور کرے تواس کا کیاحکم ہے ؟
توشيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
بیوی پراس معاملہ میں خاوند کی اطاعت کرنا یا اپنے آپ کو اس کے سپرد کرناحرام ہے ، اس لیے کہ وہ فرضی روزے کی حالت میں ہے اسے چاہیے کہ حتی الامکان مدافعت کرے ، اورخاوند پر بھی اس حالت میں بیوی سے جماع کرنا حرام ہے ، اگرتووہ اس معاملہ میں خاوند سے چھٹکارا نہ پاسکے تواس پرنہ تو کفارہ ہے اورنہ ہی قضاء اس لیے کہ وہ مکرہہ یعنی مجبور تھی ۔ اھـ
دیکھیں فتاوی الصیام صفحہ نمبر ( 339 ) ۔
واللہ اعلم .